اللہ کا ذکر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں  آئی ہے:ألا أنبئکم بخیر أعمالکم، وأزکاہا عند ملیککم، وأرفعہا فی درجاتکم وخیر لکم من إنفاق الذہب والورق، وخیر لکم من أن تلقوا عدوکم فتضربوا أعناقہم ویضربوا أعناقکم؟ قالوا:بلى. قال:ذکر اللہ تعالى(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3377)۔ یعنی کیا میں  تمھیں سب سے بہتر اعمال کے بارے میں  نہ بتاؤں۔ وہ تمہارے بادشاہ کے نزدیک بہت پاکیزہ ہے، وہ تمہارے درجات کے لیے سب سے بلند ہے،اوروہ تمہارے لیے بہتر ہے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور وہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے دشمنوں سے ملو : تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟ صحابہ نے کہا کہ کیوں نہیں ؟ آپ نے کہا: اللہ کا ذکر۔

یہاں ذکر ُاللہ سے مراد اللہ کا لفظی ورد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد اللہ کی شعوری یاد (intellectual remembrance) ہے۔ یہ یاد شعوری یانان اسٹاپ (non-stop) انداز میں  ہر وقت مطلوب ہے۔ یہ شعوری یاد کسی قسم کے روٹین کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ حقیقت کی دریافت کے نتیجے میں  ذہن انسانی میں  خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک زندہ اور تخلیقی سوچ ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں  آیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں  اور رات دن کے باری باری آنے میں  عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں  غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (3:190-91)۔ یہ اعلیٰ ذکر کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ وہ گہرے غور و فکر کے ذریعہ اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ یہ دریافت اتنی کامل ہوکہ وہ سوچ پر غالب آجائے، اس کی شخصیت اسی دریافت میں  ڈھل جائے۔ وہ اس کے صبح و شام کا ناگزیر اثاثہ بن جائے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom