خدا کا وجود
خدا اپنی ذات کے اعتبار سے انسان کو دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر دکھائی دینےوالی حقیقت ہے۔ جو لوگ خدا کو اس کی صفات کے اعتبار سے دیکھ لیں، وہی آنکھ والے لوگ ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ یہ کہیں کہ خدا کو اپنی ذات کے اعتبار سے ہمیں دکھاؤ، وہ بلاشبہ اندھے لوگ ہیں۔وہ بظاہر آنکھ والے لوگ ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بے آنکھ والے ہیں۔ کیوں کہ وہ عقل رکھتے ہوئے اپنی عقل کو استعمال نہیں کرسکے۔ وہ اپنی ظاہری آنکھ کو تو کھولتے ہیں، لیکن وہ اپنی عقل کی آنکھ کو بند رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ بات ہر حقیقت سے زیادہ بڑی حقیقت بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں جس چیز کو سائنس کہا جاتا ہے، وہ کیا ہے۔ سائنس انسان کی عقلی آنکھ ہے۔ اس عقلی آنکھ نے موجودہ زمانے میں انسان کو وہ چیزیں دکھادی ہیں، جس کو اس سے پہلے انسان نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب انسان اس قابل ہوچکا ہے کہ وہ عالم اصغر (micro world) کو مائکرو اسکوپ کے ذریعہ دیکھے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ انسا ن کے لیے مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ تھا۔ اسی طرح انسان کے لیے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ عالم کبیر (macro world)کو عقل کی آنکھ سے دیکھے۔ وہ ٹیلسکوپ کے ذریعہ ایسی چیزوں کو دیکھ سکے، جو پہلے اس کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔
آج مائکرواسکوپ نے ان چیزوں کو انسان کے لیے قابل مشاہدہ بنادیا ہے، جو پچھلے زمانے میں ناقابل مشاہدہ سمجھی جاتی تھیں۔ اسی طرح ٹیلسکوپ نے وہ چیزیں انسان کو دکھادی ہیں، جو پچھلے زمانے میں انسان کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔ یہ واقعہ ایک سراغ (clue)کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سراغ بتاتا ہے کہ یہ معاملہ خدا کو نہ دیکھنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی عقل کے کم تر استعمال کا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل کا بر تر استعمال جان لے تو خدا اس کے لیے مشاہدہ کے درجے میں قابل دریافت بن جائے گا۔ وہ خدا کو اس طرح جان لےگا جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔