سوال و جواب

سوال

ایک سوال یہ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں  جبکہ مسلمان فرقوں میں  بٹ گئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کو حق پر ہونے کا دعوٰی کرتا ہے ہمیں  کس منہج پر چلنا چاہیے؟ (محمد عمر خالد)

جواب

اس سوال کا جواب راقم الحروف کی کتاب تجدید دین میں  دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً اس سوال کا جواب درج کیا جاتا ہے۔فرقہ بندی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب مبنی برفارم انتہا پسندی ہے۔ دین، مثلاً نماز کا ایک فارم ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اسپرٹ ایک ہے، اور وہ ہمیشہ ایک رہے گی۔ یہ اسپرٹ تقویٰ اور خشوع ہے۔ جیسا کہ حدیث میں  آیا ہے: التقوى ہاہنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2564)۔ یعنی تقویٰ دل میں  ہے۔ اسی طرح قرآن میں  آیا ہے: الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ (23:2)۔ عبادت میں  اگر اسپرٹ پر زور دیا جائے تو کبھی فرقہ بندی پیش نہیں آئے گی۔ کیوں کہ اسپرٹ ایک ہے، وہ ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔

اس کے برعکس، فارم میں  تعدد ہے۔ یعنی روایتوں میں  کسی عبادت کے کئی فارم بتائے گئے ہیں۔ یہ تعدد سب کے سب جزئی امور میں  ہیں۔ اس لیے فارم میں  زور دینے سے ہمیشہ تعدد پیدا ہوجائے گا۔ اس بنا پر فارم کے معاملے میں  صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس معاملے میں  تنوع کو درست سمجھا جائے۔ مثلاً کوئی شخص نمازمیں  آمین بالسر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست، اور کوئی شخص نماز میں  آمین بالجہر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست۔

فرقہ بندی فارم پر زور دینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی ایک فارم کو درست سمجھتا ہے، کوئی دوسرے فارم کو۔ اس طرح عبادت کے کئی طریقے بن جاتے ہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملے میں  بنیادی فارم میں  توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور عبادت کے فروعی اجزاء میں  تنوع کا طریقہ۔مثلاً نماز کی رکعت میں  توحد، اور حالت قیام میں  ہاتھ باندھنے میں  تنوع۔

سوال

کسی کی تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، اور تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، ان دونوں میں  کیا فرق ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد،تامل ناڈو)

جواب

تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، زیر بحث موضوع کا علمی تجزیہ ہے۔ اس کے برعکس، تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، تنقیص کا فعل ہے۔ پہلی صورت میں  زیر بحث موضوع کا علمی پہلو واضح ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں  عملاً کسی شخص کی شخصی عیب زنی کا فعل انجام پاتا ہے۔ پہلی صورت علمی ارتقا کا ذریعہ ہے، اور دوسری صورت کا حاصل صرف یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ ملے۔

مثلاً اٰیک شخص جہاد کے موضوع پر ایک مضمون شائع کرتا ہے،ا ور اس میں  لکھتا ہے کہ جہاد بمعنی قتال حسن لغیرہ ہے، حسن لذاتہ نہیں۔ یعنی وہ کوئی عقیدہ کا مسئلہ نہیں، وہ ایک طریقہ کار (method) کا مسئلہ ہے۔ جہاد بمعنی قتال صرف ضرورت (necessity)کے تحت مطلوب ہوتاہے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ بذات خود کوئی دینی فریضہ ہے۔ اس نقطہ نظر پر کوئی شخص قرآن و حدیث کی روشنی میں  تنقید کرے، اور علمی زبان میں  اس کے صحت یا سقم کو واضح کرے تو وہ ایک جائز فعل ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایک شخص اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنٹ ہے، وہ مسلمانوں کو فریضۂ جہاد سے ہٹانا چاہتا ہے۔ تو یہ صرف تنقیص یا الزام تراشی ہوگی۔ ایسی تنقید بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔ اسلام میں  اس کا کوئی جواز نہیں۔

اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کچھ غلط لکھا یا کہا ہے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ اس کی غلطی کو علمی طور پر واضح کیجیے۔ کیوں کہ اگر آپ الزام تراشی یا تنقیص کی زبان بولیں تو وہ سب و شتم ہوگا، جو اسلام میں  جائز نہیں — حقیقت پسندانسان وہ ہے جو باتوں کو دلائل کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو اس کو رد کردے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom