آج کا نوجوان
پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارہ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS) میں ’’یک روزہ بک فیر‘‘کا پروگرام تھا۔ ہمارے ایک ساتھی، مسٹر طارق بدر نے وہاں بک اسٹال لگایا۔ یہ بک اسٹال بہت زیادہ کامیاب رہا۔مسٹر طارق بدر نے بک فیر کے اختتام پر اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے:
LUMS Book Fair is going great. Students are taking copies of the English Quran and giving such comments: “I was looking for it”, ـ“I need it” and “Can I have one for my friend”. An important learning I had was that today we need to work among the youth, as they are pure seekers and want to understand the true religion. Unfortunately, all other Islamic literature does not address their minds. How our stock of 350 English Qurans finished was a great surprise and students’ excitement after receiving their free copies was unbelievable. Another book which was sold in good amount was Leading A Spiritual Life. Let’s pray that we spread this message to all universities here. We are thankful for Affan, who is doing PhD from LUMS and is part of our team.This was his initiative.
برٹش دور میں جب غیر منقسم انڈیا میں ماڈرن ایجوکیشن کا آغاز ہوا تو تقریباً تمام مذہبی طبقہ، اور اسلامی تحریکیں ان کے خلاف ہو گئیں۔ اکبر الہ آبادی نے اس تعلیم کے بارے میں کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
سید ابوالاعلی مودودی نے اس زمانے میں کالج اور یونیورسٹی کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ تعلیم گاہیں نہیں ہیں، بلکہ وہ قتل گاہیں ہیں۔ یہی حال تقریباً تمام ان لوگوں کا تھا، جو اسلام پسند کہے جاتے تھے، اور احیائے اسلام کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے۔ مگر تجربے نے بتایا کہ یہ تعلیم ہمارے نوجوانوں کے لیے ڈی کنڈیشننگ کا ذریعہ تھی۔ اس تعلیمی نظام میں جو لوگ پڑھ کر نکلے، وہ ’’قتل ‘‘ نہیں ہوئے، بلکہ جدید تعلیم نے ان کے اندر نئی اسلامی بیداری پیدا کردی— وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سیکولر تعلیم یافتہ لوگوں پر فتوی لگانے کے بجائے، ان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا لٹریچر تیا ر کیا جائے۔