جہاد کا حکم
جہاد بمعنی قتال ایک خصوصی حکم ہے۔ جہاد بمعنی قتال کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہو، اور اس کی سرحدوں پر کھلی جارحیت کی جائے۔ اس وقت ذمہ داران سلطنت کی طرف سے جارح سے گفت و شنید کی جائے گی۔ اگر گفت و شنید ناکام ہوجائے تو بقدر ضرورت مسلمانوں کی طرف سے منظم دفاع کیا جائے گا۔ یہی شرعی جہاد ہے۔ اس دفاع کے معاملے میں افراد کا کوئی آزادانہ رول نہیں ہے۔ افراد کو صرف یہ کرنا ہے کہ امیر سلطنت کے حکم کے مطابق، دفاع میں منظم حصہ لیں۔ یہاں اس سلسلے میں ایک حوالہ درج کیا جاتا ہے۔
ابو محمد موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن محمدبن قدامہ المقدسی حنبلی (1147-1223 ء) محدث، فقہ حنبلی کے عالم اور قاضی اور مفکر تھے۔انھوں نےفقہ حنبلی کے فقہی مسائل پر بیشتر کتب تصنیف کیں ۔ وہ حنابلہ کے عظیم فقہاء میں سے ایک ہیں۔ ابن قدامہ کی تصنیف المغنی کا شمار فقہ حنبلی کی بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے۔
اس کتاب کا ایک باب ہے: فصل وأمر الجہاد موکول إلى الإمام واجتہادہ۔ اس باب کے تحت مصنف لکھتے ہیں : وَأَمْرُ الْجِہَادِ مَوْکُولٌ إلَى الْإِمَامِ وَاجْتِہَادِہِ، وَیَلْزَمُ الرَّعِیَّةَ طَاعَتُہُ فِیمَا یَرَاہُ مِنْ ذَلِکَ (المغنی، 9/202/7423)۔ یعنی جہاد اور اس کے اجتہاد کا معاملہ امام کے ذمہ (assigned)ہے، اور رعیت پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں جو حاکم کی رائے ہو، اس کی اطاعت کرے۔
جہاد بمعنی قتال ایک منظم دفاعی امر ہے۔ جہاد کو شروع کرنا، اور اس کو ختم کرنا، دونوں باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ اس معاملے میں افراد کا رول صرف حاکم کی اطاعت ہے، نہ کہ بطور خود جارح کے خلاف کوئی کارروائی کرنا۔ نماز بغیر امیر کے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جہاد بمعنی قتال امیر کے بغیر سر تاسر ناجائز ہے۔