قرآن فہمی کا معیار
لوگوں نے قرآن فہمی کا خود ساختہ طور پر ایک غلط معیار بنا رکھا ہے۔ وہ قرآن فہمی اس کو سمجھتے ہیں کہ اس میں الفاظ کی تحقیق ہو۔فنی تجزیہ کیا گیا ہو۔ اس کے اندر شخصیتوں کے حوالے درج ہوں۔ قرآن کی آیتوں کی تفسیر شان نزول کے حوالے سے کی گئی ہو، اس میں قرآن کی آیتوں کا ربط (order)بیان کیا گیا ہو،وغیرہ۔
مگر یہ سب قرآن فہمی کے خود ساختہ معیار ہیں۔ اس طرح کے بظاہر تحقیقی مضمون میں قاری کو سب کچھ ملتا ہے لیکن وہی چیز نہیں ملتی جو قرآن و سنت کا مقصد اصلی ہے۔ جس کو قرآن میں ذکریٰ اور تذکر جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی فنی تشریح و تفسیر کے بارے میں انور شاہ کشمیری نے، ایک حدیث کی شرح کے ذیل میں کہاہے: لم یتحصَّل عندنا منہ شیءٌ غیر حلِّ الألفاظ(فیض الباری علی صحیح البخاری، 1/230)۔یعنی ہمیں اس سے حل الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
قرآن و حدیث کو پڑھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خدا کا خوف پیدا ہو۔ اس کو اس میں اللہ سے محبت کی غذا ملے۔ اس کو اللہ و رسول کے کلام میں حکمت (wisdom) کی دریافت ہونے لگے۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ اللہ سے ملاقات کے ہم معنی بن جائے۔ وہ قرآن و سنت کو پڑھے تو اس کو محسوس ہو کہ وہ عالم آخرت میں اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اللہ اور رسول کا کلام پڑھنے سے اس کے اندر محاسبہ (introspection) کا جذبہ پیدا ہو۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ جنت اور جہنم کے تعارف کے ہم معنی بن جائے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کچھ فنی نکات کا حل آپ کو مل جائے۔ بلکہ قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے اندر فکری بھونچال پیدا ہو۔ آپ کے اندر اسپریچول اسٹارمنگ آئے۔ آپ کا ذہن نان کریٹو سے کریٹیو (creative)بن جائے۔ قرآن و حدیث کا صحیح مطالعہ وہ ہے جو آپ کو سجدہ قربت (العلق،19:96) کا تجربہ کرادے۔