کامیاب منصوبہ بندی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 6 ہجری کے آخر میں  مکہ کے لیڈروں سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ جو حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ عام طور پر حدیبیہ کو غزوۃ الحدیبیہ کہاجاتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ کیوں کہ حدیبیہ کے موقع پر فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس، جو ہوا وہ یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان باہمی امن کا معاہدہ ہوا۔

الحدیبیہ عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے، جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیانی مقام پر واقع ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےایک پروگرام کے تحت یہاں دوہفتہ قیام کیا۔ یہاں آپ نے مکہ کے لیڈروں سے گفت و شنید (negotiation) کی۔ اس کے بعد فریقَین کے درمیان دس سال کے لیےایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) ہوا۔ اس معاہدہ کی تکمیل کے بعد مدینہ پہنچنے سے پہلے وہ سورہ نازل ہوئی جو الفتح کے نام سے قرآن میں  شامل ہے۔ اس سورہ میں  حدیبیہ کے واقعہ کو فتح مبین (clear victory) بتایا گیا ہے۔

جب حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس وقت اہل اسلام کو کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صرف یہ ہوا تھا کہ فریقَین کے درمیان امن کا معاہدہ ( peace treaty)عمل میں  آیا تھا۔ ایسی حالت میں  اس واقعہ کو فتح مبین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لفظ حال کی نسبت سے نہیں، بلکہ مستقبل کی نسبت سے تھا۔ اس اعتبار سے فتح مبین کا مطلب گویا فاتحانہ منصوبہ (victorious planning) کے ہم معنی ہے۔ رسول اللہ کی سنتوں میں  سےایک اہم سنت وہ ہے جس کو فاتحانہ منصوبہ بندی کہا جاسکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ سے نکلے تھے، مکہ جانے کے لیے۔ لیکن وہ معاہدہ کے مطابق حدیبیہ سے واپس مدینہ آگیے۔ اس لحاظ سےحدیبیہ کا واقعہ بظاہر ایک پسپائی کا واقعہ تھا۔ پھر اس کو فتح مبین کیوں کہا گیا۔ وہ اس لیے تھا کہ حدیبیہ کی بظاہر پسپائی اپنے نتیجے کے اعتبار سے فتح مبین تھی۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom