مشکل حالات
فطرت کا ایک اصول قرآن میں ان الفاظ میں بیا ن کیا گیاہے: سَیَجْعَلُ اللَّہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا (65:7)۔ یعنی اللہ عُسر کے بعد عنقریب یسر پیدا کردے گا۔ عسر کا مطلب ہے مشکل (difficulty)، اور یُسر کا مطلب ہے آسانی (ease)۔قرآن کی یہ آیت طلاق کے حکم کے دوران آئی ہے۔ لیکن یہ فطرت کا اصول ہے، اور اس اعتبار سے اس اصول کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔
اس اصول کے اندر ایک حکمت چھپی ہوئی ہے۔ جب آدمی کے اوپر مشکل حالات آتے ہیں، تو اس کے ذہن میں ایک دباؤ (pressure) پیدا ہوتا ہے۔ اس دباؤ کے تحت وہ زیادہ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ معاملے کے نئے نئے پہلو اس کی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ مشکل سے پہلے اگر وہ ایک غیر تخلیقی ذہن تھا، تو مشکل کے بعد وہ ایک تخلیقی ذہن (creative mind) بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ اہلیت کے ساتھ صورت حال کا سامنا کرے۔وہ زیادہ بہتر طور پر مواقع (opportunities) کو دریافت کرسکے۔
اس اصول کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ گھر کی زندگی، سماج کی زندگی، اور وسیع تر معنوں میں قومی اور بین اقوامی زندگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکل کی حیثیت انسانی زندگی میں معلّم کی ہے۔ کسی نے درست طور پر کہا ہے کہ مشکل انسان کو انسان بناتی ہے:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.
فطرت کا نظام اس طرح بنا ہے کہ انسان کو کبھی اپنی مرضی کے مطابق بالکل آسان حالات نہ ملیں، اس کو مشکلات کی جھاڑیوں سے گزرنا پڑے۔ یہ صورت حال انسان کی شخصیت کی تعمیر کرنے کے لیے ہے۔ یہ صورتِ حال ایک انسان کو غیر پختہ شخصیت (immature personality)کے بجائے پختہ شخصیت (mature personality)بنا دیتی ہے۔