مسجد کا مسئلہ

عام طو رپر یہ سمجھا جاتاہے کہ مسجد کی تعمیر ایک ابدی تعمیر ہے۔ جس مقام پر ایک بار مسجد بن جائے، وہاں وہ مسجد ہمیشہ قائم رہے گی، اُس کا وہا ں سے ہٹانا جائز نہیں ۔ مسجد کے بارے میں  یہ مسئلہ اسلام کے بعد کے زمانے میں  عباسی دور میں  کچھ فقہا نے وضع کیا۔ لیکن قرآن یا حدیث میں  مسجد کے بارے میں  ایسا کوئی مسئلہ ہرگز موجود نہیں۔موجودہ زمانے کے بعض علما نے اس مسئلہ کو اجتہادی مسئلہ بتایا ہے۔ یعنی ضرورت کے تحت مسجد کو اس کے سابق مقام سے ہٹایا جاسکتا ہے، او ر اس میں  کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ حنبلی فقہ واضح طور پر اس مسئلے کی تائید کرتی ہے۔

مشہور حنبلی عالم ابن قدامہ (1147-1223ء) نے اپنی کتاب المغنی میں  لکھا ہے : ولو جاز جعل أسفل المسجد سقایة وحوانیت لہذہ الحاجة، لجاز تخریب المسجد وجعلہ سقایة وحوانیت ویجعل بدلہ مسجدا فی موضع آخر(المغنی لابن قدامہ، 6/30)۔ یعنی اگر ضرورت کے تحت مسجد کے نچلے حصہ کو سقایہ(پانی کا حوض) اور دکان بنانا جائز ہے، تو مسجد کو ڈھانا اور اس کو سقایہ اور دکان بنانا بھی جائز ہے، اور اس کے بدلے میں  دوسری جگہ ایک مسجد بنائی جائے گی۔

اسلام میں  مسجد کی عمارت کا مسئلہ ضرورت کی بنیاد پر ہے، نہ کہ تقدس کی بنیاد پر۔ جدید دورمیں  جب سٹی پلاننگ کا زمانہ آیا تو مسلم شہروں مثلاً مکہ،مدینہ،وغیرہ، میں  بڑی تعداد میں  قدیم مسجدیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل (relocate)کی گئیں۔ کیوں کہ یہ قدیم مسجدیں سٹی پلاننگ (city planning) میں  رکاوٹ ثابت ہورہی تھیں۔ مثلاً اگر ایک مسجد بلال کے نام پر کہیں واقع تھی، تو اسی نام سے دوسری مسجد پہلے مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ پر بنا دی گئی، اور مسجد کے مقام پر شہری منصوبہ کے مطابق نئی تعمیر کی گئی۔مسجد کی عمارت بلاشبہ ایک قابل احترام عمارت ہے۔ لیکن ضرورت کے تحت کسی مسجد کی عمارت کے مقام کو تبدیل کرنا بلاشبہ جائز ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom