مقالید السماوات والارض

قرآن میں  اللہ رب العالمین کی قدرت کو مختلف الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں  ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں :لَہُ مَقَالِیدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (42:12)۔ یعنی اسی کے اختیار میں  آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ وہ جس کے لیے چاہتا ہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے کم کردیتا ہے۔ بیشک وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

اس بات کو دوسرے الفاظ میں  اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پوری کائنات کا سوئچ بورڈ اللہ رب العالمین کے پاس ہے۔ وہ جس سوئچ کو چاہے آن کرے، اور جس سوئچ کو چاہے آف کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ رب العالمین پر بھروسہ کرے۔ وہ مانگے تو اللہ رب العالمین سے مانگے۔ وہ امید رکھے تو صرف اللہ رب العالمین سے امید رکھے۔ اس معاملے میں  اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ اللہ رب العالمین سے کبھی اور کسی حال میں  مایوسی کا شکار نہ ہو۔ یہ یقین کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اللہ رب العالمین کو شعور کی سطح پر دریافت کرلے۔

ایک اور مقام پر اس حقیقت کو ان الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے:وَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَفْقَہُونَ (63:7)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں لیکن منافقین نہیں سمجھتے۔

اس آیت میں  منافقین سے مراد کوئی فرقہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زبان سے اللہ کا اقرار تو کریں، مگر اللہ پر ان کا اقرار دریافت (discovery) کے درجے تک نہ پہنچا ہو۔ اس بنا پر ان کا اقرار یقین کی کیفیت سے خالی ہو۔ وہ لپ سروس (lip service) کے درجے میں  اللہ کو مانتے ہوں، لیکن اللہ کا عقیدہ ان کی شخصیت سازی میں  موثر عامل کی حیثیت سے شامل نہ ہوا ہو۔ وہ اللہ کو مانیں، مگر اللہ ان کے لیے یقین کا سرمایہ نہ بنا ہو۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom