آخرت کا مضمون
ایک آدمی قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرے، وہ صحابہ کے حالات کو پڑھے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کی سوچ آخرت رخی سوچ بن جائے۔ وہ آخرت کے مضمون پر لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ اب بھی اس کا لکھنا آخرت نویسی کے ہم معنی ہو۔ فنی اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود اس کے لکھنے اور بولنے میں آخرت کا گہرا ادراک شامل نہ ہو۔
لیکن آدمی اگر لمبی عمر پائے۔ اس پر بیماری اور حادثات کے حالات گزریں، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوجائے۔ اس پر بڑھاپے کے حالات گزریں۔ وہ عجز اور کمزوری کے حالات سے دوچار ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کا آخرت کا علم آخرت کا گہرا احساس بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت کے اوپر لکھتا تھا تو اب وہ آخرت میں جینے والا بن جائے گا۔
جو آدمی اپنی عمر کے لحاظ سے آخرت میں جینے کے دور میں پہنچ جائے، اس کے لیے آخرت ایک ایسا موضوع بن جائے گا، جس کا وہ ذاتی طور پر تجربہ کر رہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت کو پڑھتا تھا، تو اب وہ آخرت کو دیکھنے والا بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت پر معلومات دیا کرتا تھا تو اب وہ ایسا انسان بن جائے گا، جو گویا کہ آخرت کا ذاتی تجربہ کررہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت نویسی کرتا تھا، تو اب وہ آخرت کے موضوع پر تجربہ نویسی کے مرحلہ میں پہنچ جائے گا۔
ایسا آدمی بہت قیمتی ہوتا ہے۔ دوسروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر کو پہچانیں۔ وہ اس کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اس کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ کسی کی تحریر و تقریر سےآپ کو معلومات مل سکتی ہیں، لیکن تجربہ کار سے جو چیز ملتی ہے، وہ اس سے زیادہ ہوتی ہے۔یعنی آخرت والا بن جانا۔تاہم تجربہ کا دور اسی آدمی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جو بڑھاپے سے پہلے آخرت کو جاننے والا ہو۔وہ قرآن و حدیث کے ذریعہ آخرت کا علم حاصل کرنے کے بعد آخرت میں جینے کی کوشش کرنے والا بن چکا ہو۔