دعوت کا اسلوب

قرآن کا ایک حکم ان الفاظ میں  آیا ہے: فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں  اتر جائے۔

اس آیت میں  قول بلیغ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی (وفات1810ء)نے لکھا ہے: ای فى حق أنفسہم قَوْلًا بَلِیغاً یبلغ صمیم قلوبہم بالتأثیر (تفسیر المظہری، 2/157)۔ یعنی اپنی بات ایسے اسلوب میں  کہو جس کی تاثیر ان کے دلوں کی گہرائیوں میں  اترجائےہو۔ دوسرے الفاظ میں  یہ کہ ایسا اسلوب جو ان کے ذہن کو ایڈریس (address)کرنے والا ہو۔ یہاں اسلوب بلیغ کی یہ بات بظاہر مدعو کی نسبت سے ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ داعی کی نسبت سے ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو سے خطاب کرنے سے پہلے مدعو کے ذہن کا مطالعہ کرے۔ وہ جانے کہ مدعو کا مائنڈ سٹ (mindset)کیا ہے، اور پھر مدعو کے مائنڈ سٹ کے مطابق، دعوت کا اسلوب اختیار کرے۔ دعوت یک طرفہ اعلان (one-sided announcement) کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو کے لیے قابلِ فہم (understandable) انداز کو سمجھے، پھر اس کے بعد اپنے آپ کو اس کے مطابق تیار کرے۔

مثلاً زمانہ اگر بدل جائے، اور مدعو اگر نئے اسلوب میں  سوچنے والا بن گیا ہو تو اس کو قدیم طرز کے متروک اسلوب میں  خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب طرز نہ ہوگا۔مدعو اگر حقائق کی زبان میں  سوچنے والا ہو تو اس کو قیاس و مثال کے ذریعہ خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب انداز نہ ہوگا۔ مدعو اگر عقلی تجزیہ (rational analysis) کے انداز میں  سوچتا ہو تو اس کو جذباتی انداز میں  کلام کرنا، مطلوب اسلوب کلام نہ ہوگا، وغیرہ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom