ہر ایک کے لیے خیر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے، اور بھلائی ہر ایک کے لیے ہے۔ ایک شخص اگر پیدائشی طور پر طاقت ور ہو تو اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرلے۔ لیکن جو انسان پیدائشی طور پر کمزور ہو، وہ بظاہر اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرسکے۔ لیکن خیر دونوں کے لیے ہے۔ ایک کےلیے اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر، اور دوسرے کے لیے اللہ کی مدد کی بنیاد پر۔
جو آدمی ضعیف ہو، وہ اگر منفی نفسیات میں مبتلا نہ ہو تو اس کے اندر اللہ کی یاد جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اللہ سے مدد کا طالب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کی مدد پر آجاتا ہے۔ جب کمزور انسان یہ کہتا ہے کہ خدایا، تونے مجھ کو کمزور پیدا کیا، اب تجھ ہی کو یہ کرنا ہے کہ تو میری کمزوری کی تلافی کرے۔ اس قسم کی دعا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ ایسے انسان کی طرف مزید اضافے کے ساتھ متوجہ ہوجاتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ کو طاقت ور پائے، اس کے اندر اپنے آپ پر بھروسہ کی نفسیات پیداہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنے آپ کوکمزور پائے۔ اس کے اندر اللہ سے طلب کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے کہ خدایا، تونے مجھے ضعیف پیدا کیا ہے۔ اب تو ہی میرے ضعف کی تلافی فرما۔ اس طرح کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور بندۂ ضعیف اللہ کی مدد سے وہ کام کرلیتا ہے جو اکثر حالات میں بندہ قوی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اس کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ بندۂ ضعیف کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جاتی ہو۔