ابدی جنت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا انعام غیر ممنون انعام (endless reward) ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں چار جگہ اجر غیر ممنون کے الفاظ آئے ہیں۔ایک جگہ یہ حقیقت مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان ہوئی ہے:وَأَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیہَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ (11:108)۔ یعنی اور جو لوگ خوش بخت ہیں۔ وہ جنت میں ہوں گے، وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں، مگر جو تیرا رب چاہے، ایک عطیہ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
جنت کا غیر منقطع ہونا واضح ہے۔ کیوں کہ جنت رب العالمین کا عطیہ ہے، اور خدائے لامحدود کا عطیہ کبھی محدود نہیں ہوسکتا۔ یہ رب العالمین کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو محدود عطیہ دے۔ محدود عطیے کا تصور اللہ رب العالمین کے کمتر اندازہ (underestimation) کے ہم معنی ہے، اور ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ اب سوال انسان کا ہے۔ کیا یہ لامحدودیت جو اللہ کی نسبت سے ہے، وہ انسان کی نسبت سے بھی باقی رہے گی۔ اس کا جوابـ" ہاں " ہے، جو خدا کی طرف سے انھیں بطور عطیہ ملے گا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں داخلہ مل جائے گا تو وہ کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے رنج کو ختم کردیا۔
اہل جنت کی طرف سے اظہارحمد، یہ وقتی کلمہ نہیں ہے۔ یہ ابدی احساس حمد کی بات ہے۔ اہل جنت کی طرف سے احساس حمد، بلاشبہ ایک تخلیقی احساس (creative feeling) کی بات ہے۔ یہ کریٹیو احساس انھوں نے دنیا کی زندگی میں حاصل کیا ہوگا۔ یہ کریٹیو احساسِ حمد جو جنت کے پانے سے پہلے بذریعہ معرفت اہل جنت کے اندر پرورش پائے گا، وہ اتنا طاقت ور ہوگا کہ وہ جنت کا ابدی عطیہ پانے کے بعد بھی برابر ایک اضافہ پذیرتجربہ کی حیثیت سے جاری رہے گا۔ جنت جس طرح ابدی ہوگی، اسی طرح جنت کے پانے پر احساسِ حمد بھی یقینی طور پر ابدی ہوگا۔