دعا کی حقیقت
دعا اگر صالح دعا ہوتو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ لیکن بڑی بڑی دعائیں ہمیشہ تاخیر کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حضرت ابراہیم کی دعا ہے۔ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے وقت ایک آخری پیغمبر کے ظہور کی دعا کی تھی(البقرۃ، 2:129)۔یہ دعا قبول ہوئی۔ لیکن اس پیغمبر کا ظہور عملاً دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد پیش آیا۔تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہمیشہ اسی طرح لمبی مدت کے بعد ظہور میں آتے ہیں۔ بڑی بڑی دعاؤں کے لیے پوری تاریخ کو مینج کرنا پڑتا ہے۔ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، حالات کو اس کے مطابق بنانا پڑتا ہے۔ اس لیے قانونِ قدرت کےمطابق، کوئی بڑی دعاکبھی اس طرح قبول نہیں ہوتی کہ دعاکرنے والے نے دعا کیا۔ اور اس کے فوراً بعد اس کی قبولیت بھی سامنے آگئی۔
دعا کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186)۔ یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، پس ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اس آیت میں بتایا گیاہے کہ خدا بندے کے قریب ہے۔ اور وہ بندے کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ لیکن جواب کی صورت کیا ہوتی ہے، اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں موجود نہیں۔ اجیب دعْوة الداع اذا دعان کے فورا بعد جو الفاظ آئے ہیں، وہ یہ ہیں :فلیستجیبو لی ولیؤ منوا بی لعلھم یرشدون۔یعنی ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، اسی میں ان کی فلاح ہے۔
یہاں دعا کے بعد جواب دعا کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے کہ اس میں کسی بات کے ایک پہلو کا ذکر ایک مقام پر ہوتا ہے، اور اُس کے دوسرے پہلو کا ذکر دوسرے مقام پر۔ مثلاً قرآن میں قصہ آدم کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے غلطی کرنے کے بعد جب توبہ کی، تو ان کی توبہ قبول ہوئی، اور دعا کے الفاظ بھی ان کو تلقین کیے گئے۔ مگر یہ دونوں بات ایک جگہ موجود نہیں۔ مثلاً سورہ البقرۃ آیت37 میں توبہ کا ذکر ہے۔ لیکن جہاں تک الفاظِ دعا کا تعلق ہے، وہ دوسرے مقام پر سورہ الاعراف آیت23 میں بتائے گیےہیں۔
یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب ریح (یوسف،12:94) کی صورت میں ملتا ہے۔ ریح کے لفظی معنی خوشبو (fragrance) کے ہیں۔ یہاں ریح کا لفظ سادہ طور پر مہک کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اچھی خبر (good news)ہے۔ یہ حضرت یعقوب کو انسپریشن (inspiration)کی صورت میں آئی تھی۔ یعنی ان کو یہ انسپریشن آتا تھا کہ خدا ان کی دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ یوسف کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف کواندھے کنوئیں میں ڈال دیا تھا، لیکن اللہ نے ان کو مخصوص انتظام کے تحت مصر کے تخت پر پہنچادیا۔
دعا کی یہ قبولیت ہر انسان کے لیے مقدر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔ وہ شرط قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ (12:90)۔ یعنی جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یہ خصوصی نعمت اس انسان کو ملتی ہے، جو احسان کے درجے میں اس کا استحقاق ثابت کرے۔ یعنی ہمیشہ اللہ سے پر امید رہے، اور ہر حال میں وہ صابرانہ انتظار کی روش پر قائم رہے۔
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ وہاں کچھ لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا، لیکن اکثریت آپ کی مخالف بن گئی۔ آخر کار یہ واضح ہوگیا کہ آپ کو مکہ چھوڑنا پڑےگا۔ اس زمانےمیں آپ اللہ سے بہت زیادہ دعائیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا (17:80)۔ یعنی اور کہو کہ اے میرے رب، مجھ کو داخل کر سچا داخل کرنا اور مجھ کو نکال سچا نکالنا۔ اور مجھ کو اپنے پاس سے مددگار قوت عطا کر۔یہ دعا قبول ہوئی، لیکن الفاظ کی صورت میں نہیں، بلکہ واقعات کی صورت میں۔
اس زمانے میں ہجرت سے تقریباً دو مہینہ پہلے وہ واقعہ ہوا، جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ بظاہر دعا کے جواب کے طور پر پیش نہیں آیا۔ مگر یہ وہی چیز تھی جس کو قرآن میں ریح (یوسف،12:94) کہا گیا ہے۔ یعنی اس موقع پر آپ کو یہ انسپریشن ملا کہ تمھاری دعا نہایت اعلی صورت میں قبول ہونے والی ہے۔ پیغمبر اسلام نے مدخل و مخرج کی دعائیں کی، لیکن اسی کے ساتھ آپ خصوصی طور پر تقویٰ اور صابرانہ روش کے ساتھ درجۂ احسان پر قائم رہے۔آپ نے اس معاملے میں خدائی ریح پر بھروسہ کیا۔ یہاں تک کہ نبوت کے تیرھویں سال ہجرت مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ جو اسلام کی تاریخ کے لیے ایک بڑا انقلابی مرحلہ (breakthrough)ثابت ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے کچھ پہلے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا :أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ القُرَى، یَقُولُونَ یَثْرِبُ، وَہِیَ المَدِینَةُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1871)۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کوکھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، وہ مدینہ ہے۔
دعا کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَة (سنن الترمذی، حدیث نمبر3371)۔یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دعا حکمت (wisdom) کا خزانہ ہے۔ دعا کا خزانہ خدا کی دوسری رحمتوں کی طرح عام ہے۔ لیکن اس خزانۂ دعایا اس خزانۂ رحمت سے صرف اس شخص کو حصہ ملتا ہے، جو محسن ہو۔ یعنی تقویٰ اور صبر کے مطلوب معیار پر قائم رہے۔
ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔