دین اکابر

دور زوال میں کسی امت کا حال کیا ہوتا ہے، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (9:31)۔ یعنی انھوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا لیا۔احبار و رہبان کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اکابر کو اتنا بڑا درجہ دیا کہ عملاً وہی لوگ ان کے لیے دین کا ماخذ بن گئے۔ یہاں تک کہ لوگ عملاًدین خداوندی کے بجائے دین اکابر پر قائم ہوگئے۔

کسی امت کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب کہ اللہ رب العالمین کے بارے میں ان کا عقیدہ محض رسمی عقیدہ بن جائے، وہ زندہ عقیدہ کی حیثیت سے ان کے درمیان باقی نہ رہے۔ اس وقت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کو بڑے بڑے القاب دینے لگتے ہیں۔ مثلا امام، شیخ الاسلام، مجدد کامل، فقیہ الامت، حکیم الامت، حکیم الاسلام،امام اعظم،وغیرہ۔ اس طرح کے بڑے بڑے القاب دینے کی بنا پر ان کا ذہن یہ بن جاتاہے کہ علم کے بارے میں یہ لوگ آخری شخص بن گئے۔ تجدید اور اجتہاد کا عمل ان کے اوپر ختم ہوگیا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑوں کو پیغمبر تو نہیں کہتے، لیکن عملا ًوہ ان کو دین میں پیغمبر جیسا درجہ دے دیتے ہیں۔

یہ تنزل کا آخری درجہ ہے۔ جب امت میں یہ درجہ آتا ہے تو امت کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اجتہادی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ تقلید کو دین سمجھ لیتے ہیں، اور اجتہاد کو بے دینی۔ ان کی سوچ کی آخری حدیہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کے ملفوظات کو دہراتے رہیں۔ وہ اپنے بڑوں کی رایوں کو تفقہ کا اعلیٰ درجہ سمجھ لیتے ہیں۔ زوال کے اس حد پرپہنچنے کے بعد ان کا وہی درجہ ہوجاتا ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (7:179)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom