موت کا واقعہ
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، یَعْنِی الْمَوْتَ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ موت دنیا کی لذتوں سے آدمی کوپوری طرح منقطع کردیتی ہے ( فإنہ یقطع لذات الدنیا قطعا)۔
اس حدیث میں لذات سے مراد دنیوی تمنائیں (worldly aspirations)ہیں۔یہاں جس چیز کو ھادم اللذات کہا گیا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کے اندر اگر موت کا زندہ شعور ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کی دنیوی وابستگی (worldly attachment)باقی نہ رہے گی۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہم سمجھے گا۔ اس کے بعد اس کی سوچ مکمل طور پر آخرت رخی سوچ (akhirat-oriented thinking) بن جائے گی۔
اس سوچ کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی کی امنگیں، آدمی کی دوڑ بھاگ، آدمی کی منصوبہ بندی، سب آخرت رخی ہوجائے گی۔ جو آدمی موت سے غافل ہو، وہ موجودہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کے ذہن پر موجودہ دنیا کا نقصان اور فائدہ چھایا رہتا ہے۔ وہ ایک دنیا پرست انسان بن جاتا ہے۔لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا زندہ شعور آدمی کو حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ اب وہ سب سے زیادہ اس دن کے بارے میں سوچے گا، جب کہ لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے(المطففین،83:6)۔ اب اس کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوجائے گی کہ وہ آخرت میں اللہ کی پکڑ سے کس طرح بچ جائے۔وہ سب سے زیادہ جہنم سے ڈرےگا، اور سب سے زیادہ جنت کا مشتاق بن جائے گا۔ اس کے لذت اور غم کے تصورات بدل جائیں گے۔ اس کے سوچنے کا طریقہ اور اس کا عملی سلوک،ہر چیز میں آخرت کا اثر دکھائی دینے لگے گا۔