تکریمِ بنی آدم
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا تو اس کو تمام اسماء کا علم دے دیا (البقر،ۃ2:32)۔ پھر اسی سلسلۂ کلام میں آگے آتا ہے:ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَى الْمَلَائِکَةِ (2:32)۔ پہلے جزء میں ضمیر ھاء واحد مونث استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بعد ضمیر ھم جمع مذکر استعمال ہوئی ہے۔ یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَامیں ضمیر ہاء سے مراد علم اسماء ہے۔ اس کے برعکس، عرضہم میں ضمیر ھم سے مراد حاملین علم اسماء ہیں۔
تخلیق کے حوالے سے قرآن میں تین الفاظ استعمال کے گیے ہیں۔ پہلا لفظ آلاء (الرحمن،55:13) ہے، دوسرالفظ آیات (یوسف، 12:105) ہے، اورتیسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ کلمات (لقمان،31:27) ہے۔ آلاء سے مراد تخلیقی کرشمہ (marvels of nature) ہے۔ آیات سے مراد تخلیق میں موجود حکمتیں (wisdom content) ہیں۔ کلمات سے مراد معلوماتِ تخلیق (knowledge of creation) ہے۔
خالق نے انسان کے اندر بالقوۃ (potential) اعتبار سے ساری تخلیقی معلومات رکھ دی ہے، جس کو علم آدم الاسماء کلہا میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات گویا کلمات اللہ ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ تخلیق کی حکمتوں (آلاء ) کو دریافت کرے، اور اس طرح اپنی معرفت کو بڑھائے۔ انسان اگر اس فکری عمل (intellectual process) کو اپنے اندر جاری کرے گا، تو وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) کے مقام تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ لوگ جو اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تشکیل کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے باغوں میں داخل کرنے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، اور پھر وہ ابدی طور پر وہاں رہیں گے۔یہ سارا عمل تدبر کا طالب ہے۔ تدبر اعلیٰ معرفت تک پہنچنے کا زینہ ہے، اور اعلیٰ معرفت جنت میں داخلے کا استحقاق پیدا کرتا ہے۔