دعوت کیا ہے

دعوت کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جو سچائی بیان کی گئی ہے، اس کو دوسروں تک پہنچانا۔ مگر پہنچانے کا مطلب صرف پہنچانا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)۔ یعنی ان کو اس طرح بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ اس طرح دعوت میں ایک اور عنصر شامل ہوجاتا ہے، اور وہ ہے مدعو کے ذہن کی رعایت۔

اگر آپ دعوت کا کام اس طرح کریں کہ قرآن و حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، خود اپنے ذہن کے مطابق، اس کی شرح کردیں تو یہ حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ کوئی کلام اس وقت دعوت بنتا ہے، جب کہ آپ اپنی دعوت میں دو تقاضوں کو پورا کریں۔ ایک یہ کہ آپ قرآن و سنت کا مطالعہ غیرمتاثر ذہن کے ساتھ کریں، اور اس کا مدعا بے کم و کاست انداز میں جاننے کی کوشش کریں، اور پھر اس کو تقریر یا تحریر کے ذریعہ مخاطب کے سامنے بیان کریں۔

مگر مطلوب دعوت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ مطلوب دعوت وہ ہے، جس میں داعی غیر جذباتی انداز میں مدعو کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور پھر مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرنے والے انداز میں خیر خواہانہ طور پر اس کو اپنا مخاطب بنائے۔دعوت اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے دوسری تحریکوں کی طرح ایک تحریک ہے۔ مگر دعوت اور دوسری تحریکوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری تحریکیں عام طور پر ردعمل کے ذہن کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ یعنی سماج میں کوئی چیز نظر آئی جو دیکھنے والوں کےلیے بظاہر غلط تھی۔ اس پر دیکھنے والوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اور یہ ردعمل دھیرے دھیرے ایک تحریک بن گیا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو تمام تحریکیں عملاً ردعمل کی تحریکیں ہوتی ہیں۔ لیکن دعوت کی تحریک کسی بھی درجے میں ردعمل کی تحریک نہیں ہے۔ دعوت داعی کی طرف سے نصح (well-wishing )کا اظہار ہے، اور بس۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom