جذباتی اشو
سرحد پار سے آنے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو انتہا پسند گروپ ہیں، وہ اب وہاں کی حکومت کے لیے غیر مطلوب (unwanted) بن چکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ دار اس کا اعتراف یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ وہ ہمارےلیے مسئلہ (problem) بن گیے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف فوری طور پر کوئی سخت اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ کیوں ہوگیا ہے کہ حکومتی ذمہ دار وہاں کی انتہا پسند تنظیموں سے اختلاف کرتے ہوئے بھی ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ اس معاملے میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ جن مسائل (issues) کو لے کر پڑوسی ملک میں انتہاپسند تحریکیں اٹھیں، ان کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کے لوگوں کے لیے جذباتی اشو بن گیا۔ یہی اس معاملے میں اصل غلطی تھی۔ اجتماعی مسائل میں بے حد ضروری ہے کہ ان کو سنسٹائز (sensitize) نہ کیا جائے، یعنی ان کو جذباتی اشو نہ بنایا جائے۔
کسی اجتماعی مسئلے کو ہمیشہ معتدل حد میں باقی رکھنا چاہیے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قوموں کےاجتماعی مسائل مقدس عقیدے کی مانند نہیں ہوتے۔ اس طرح کے مسائل میں ہمیشہ ری تھنکنگ، ری پلاننگ، یو ٹرن پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی مسئلے کو سنسٹائز کرکے اس کو ایک جذباتی اشو بنا دیا جائے تو اس معاملے میں کوئی نیا موقف (stand) لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کوئی جذباتی مسئلہ جب تک اعتدال کے دائرے میں ہو، وہ رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑھ کر ایک جذباتی اشو بن جائے تو رہنما پیچھے ہوجاتے ہیں، اور عوام آگے ہوجاتے ہے۔ اب رہنماؤں کےلیے کوئی نیا موقف اختیارکرنا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے۔