رحمت خداوندی
قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کا ایک اصول یہ ہے کہ قرآن میں بڑی بڑی باتیں بالواسطہ انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔ تاکہ انسان ان باتوں کو غور و فکر کے ذریعہ دریافت کرے، وہ ان باتوں کو خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے۔یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جس بات کو وہ خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے، وہ ایسی باتوں کو نہایت گہرائی کے ساتھ اخذ کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسانی سوچ کو ڈائریکشن (way of thinking) دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے ہمیشہ غلطیاں کرتا ہے(to err is human)۔ ایسے موقع پر انسان کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو قنوطیت (ناامیدی)سے بچنا چاہیے، اور مبنی بر رحمت سوچ کو اپنانا چاہیے۔ انسان جب اس طرز فکر کو اختیار کرے گا، تو وہ تخلیق کے بارے میں ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرے گا۔ وہ یہ کہ انسان کے اندر فطری طور پر یہ صلاحیت رکھ دی گئی ہے کہ اس کے اندر ہر غلطی یا ذنب کے بعد احساس ندامت (repentance) جاگتا ہے۔
اس احساس کے تحت اس کے اندر شدید طور پر ری تھنکنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ری تھنکنگ اس کے ذہن کو جگاتی ہے۔ اس کا احساس ندامت اس کی شخصیت کے ارتقا (personality development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک ایسا پراسس (process) جاری ہوجاتا ہے، جو اس کی روحانی ترقی کو نئی اونچائیوں تک پہنچا دیتا ہے، وہ اعلیٰ درجہ میں ایک مزکیّٰ انسان بن جاتا ہے۔