حالاتِ حاضرہ
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اگر حالات حاضرہ کے موضوع پر کلام کرتا ہے تو تقریبا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ منفی انداز میں کلام کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ پر منفی تنقید کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ میں ظلم کی نشاندہی کرتا ہے، اور بطور خود کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور پھر اس کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کردیتا ہے۔ یہی معاملہ تقریر کا بھی ہے اور تحریر کا بھی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب چیزوں کے بارے میں غلط معیار سے سوچنا ہے۔ مقررین یا محررین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کے مطابق، چیزوں کو جانچنے کا ایک معیار (yardstick) بنا لیتے ہیں۔یہ معیار ہمیشہ آئڈیل پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے اس آئڈیل معیار پر چیزوں کو جانچتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ہر چیز ان کی معیار سے کم ہے۔ اس ذاتی تجربے کی بنا پر وہ منفی بن جاتے ہیں، اور چیزوں کے بارے میں منفی رائے دینا شروع کردیتے ہیں۔ بطور خود وہ اس کو تنقید (criticism) سمجھتے ہیں۔یہ رواج ہمیشہ خود ناقد کی غلط فکری پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی حالات کبھی آئڈیل نہیں ہوسکتے۔ چوں کہ ہر آدمی کو آزادی ملی ہوئی ہے، اس لیے ہر آدمی اپنی آزادی کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ آزادی کا یہ استعمال دوسروں کی سوچ سے ٹکراتا ہے۔ جب ہر آدمی اپنی آزادی پر چلے تو لازماً ایسا ہوگا کہ ایک صورت حال جو ایک شخص کو درست معلوم ہو، وہ دوسرے کو غلط نظر آئے۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے سوا کوئی اور نظام اس دنیا میں ممکن نہیں۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist) نہ بنیں، بلکہ وہ پریگمیٹک (pragmatic) بنیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ کیا ہونا چاہیے، بلکہ وہ یہ دیکھیں کہ عملاً کیا ہوسکتا ہے۔مذکورہ رواج کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ ہر آدمی منفی سوچ میں مبتلا ہے۔ ہر آدمی دوسروں کے خلاف شکایت لیے ہوئے ہے۔ لیکن اگر لوگ حقیقت پسند بنیں، اور چیزوں کو آئڈیل معیار پر نہ جانچیں، بلکہ پریگمیٹک معیار پر جانچیں تو اس منفی صورتِ حال کا خاتمہ ہوجائے گا۔