محبت انسانی
محبت انسانی کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ(مسند احمد، حدیث نمبر 13875)۔ یعنی تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ اس بات کو فارسی شاعر شیخ سعدی (585-691ـھ) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:ہر چہ بر خود مہ پسندی، بر دیگراں مہ پسند (جو چیز تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اس کو تم دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو)۔
ہر انسان سے محبت کرنا، محض ایک سماجی یا اخلاقی تقاضہ نہیں ہے، بلکہ وہ خود اپنی شخصیت کے ارتقا کی بات ہے۔ یہ انسان کا خود اپنا انٹرسٹ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ اپنے آپ کو جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق ثابت کررہا ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا (56:25-26)۔یعنی اس میں وہ کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے۔ مگر صرف سلام سلام کا بول۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت کی سوسائٹی ایک ایسی سوسائٹی ہوگی، جہاں ہر آدمی کے دل میں دوسرے کے لیے سلامتی ہوگی، جہاں ہر آدمی اعلیٰ اخلاق کی پابندی کرنے والا ہوگا، جہاں کوئی شخص ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اس کے پڑوسی کو ذرا بھی کوئی تکلیف پہنچے۔ جنت ایسے انسانوں کا معاشرہ ہوگا، جہاں ہر شخص دوسرے انسان کا کامل معنوں میں دوست اور خیرخواہ ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کا عقیدہ ہر انسان کے لیے حسن اخلاق کو اس کے ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ بنادیتا ہے۔ ہر آدمی اخلاق کے معاملے میں حد درجہ حساس ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ اخلاق کے معاملے میں اعلیٰ معیار پر قائم نہ ہو تو وہ قانون قدرت کے مطابق، جنت میں داخلے کے لیے نااہل ہوجائے گا۔ جنت کو ماننے والا کوئی شخص اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر پورا نہ اترے۔