امت کارول

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے خبر دار کرنے والابنے۔

قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیلے گا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔

یہی بات حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ، بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیلٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔یعنی زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت کے ساتھ، ذلت والے کو ذلت کے ساتھ۔ (یعنی اسلام کا پیغام ماننے والوں تک بھی اورنہ ماننے والوں تک بھی )۔

یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے، یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا، بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے۔

قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا کام ہے جو امت مسلمہ محض اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی کام میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے جو بظاہر اپنے مادی مقاصد کے لیے اسباب پیدا کریں گے، مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹ بن جائیں گے۔

اس حدیث میں سیکولر موید (secular supporter) سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب عملاً قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔

مغربی تہذیب نے پہلی بار دنیا کے جغرافیہ کو پوری طرح ایک معلوم واقعہ بنا دیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچر آخری حد تک عام ہوگیا ہے۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین اٹھیں اور قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ آخری حد تک ممکن ہوچکی ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔

ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔

دعوت کی اس عالمی مہم کے لیے دوسرے معروف طریقوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ خالص مثبت ذہن کے تحت اعلیٰ معیار کا ایک ٹی وی چینل قائم کیا جائے۔ اس کے ذریعے تمام بڑی بڑی زبانوں میں دعوتی پروگرام نشر کیے جائیں۔ یہ کام مکمل طور پر پر امن دعوت کے تصور کے تحت کیا جائے۔ اس میں نہ مسلمانوں کی مفروضہ مظلومیت کی داستان کا ذکر ہو اور نہ مسلم فخر کا تذکرہ کیا جائے۔ اس ٹی وی کی نشریات تمام تر دعوت الی اللہ کے اصول پر مبنی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نشریات لازمی طور پر عصرحاضر کے اسلوب میں ہوں تاکہ وہ آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس کرسکیں۔جدید ٹکنالوجی نے اس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ خدا وندِ رب العالمین کا پیغام ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچ جائے۔ عالمی دعوت کا یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے:ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِینَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom