احسن القصص کا اعادہ
قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف، 12:3)۔ احسن القصص کا مطلب ہےبہترین طریقِ کا ر (best method)۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں حضرت یوسف کے ذریعہ ایک عملی مثال قائم کی، اور اس طرح ہر زمانے کے اہل ایمان کو یہ ہدایت دی کہ تم اپنے حالات کے اعتبار سے اس کامیاب طریقِ کار کو اختیار کرو۔اس طریقِ کار کا خلاصہ تھا- اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرنا، اور موجود مواقع کو پر امن انداز میں استعمال کرنا۔
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کے بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔
قدیم مصر میں حضرت موسیٰ کے زمانے میں جو بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ ایک جابر بادشاہ (despotic king)تھا۔ اس کے زمانے میں پیغمبر کے لیے یہ موقع نہیں تھا کہ وہ احسن القصص کے اصول کو استعمال کریں۔ لیکن اس سے پہلےحضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ایک اوربادشاہ کی حکومت قائم تھی، جو مختلف مزاج کا حامل تھا۔ اس کے مخصوص مزاج کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ حضرت یوسف احسن القصص کے مطابق وہاں اپنا کام کریں۔ حضرت یوسف کے معاصر بادشاہ نے حضرت یوسف سے کہہ دیا کہ تم مصر کے اقتصادی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلاؤ، میری شرط صرف یہ ہے کہ تم کو سیاسی تخت کے معاملے میں میرے ساتھ ٹکراؤ سے اعراض کرنا ہے(Only I, as king, will be greater than you.)۔ اب موجودہ زمانے میں ممکن ہوگیاہے کہ اس حسن تدبیر کو زیادہ کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آج کے اہل ایمان حضرت یوسف کی طرح وقت کی پولیٹکل اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے یک طرفہ طور پر اعراض کریں۔