نبیوں کا ماڈل
ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اللہ کے پیغمبر انسان کی ہدایت کے لیے آئے۔ایک روایت کے مطابق، ان نبیوں کی مجموعی تعدادایک لاکھ بیس ہزار (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361) سے زیادہ تھی۔ ان تمام پیغمبروں کا ماڈل بنیادی طور پر ایک تھا۔ پیغمبروں نے اس ربانی ماڈل کو اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے زمانے میں اختیار کیا۔ اس سلسلے میں قرآن کی کچھ آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
یہ ہے ہماری دلیل جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔ بے شک تمھارا رب حکیم اور علیم ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے، ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی اس سے پہلے۔ اور اس کی نسل میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیکوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی، ان میں سے ہر ایک صالح تھا۔ اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی، اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ اور ان کے باپ دادوں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی، اور ان کو ہم نے چن لیا اور ہم نے سیدھے راستہ کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس سے سرفراز کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرتے تو ضائع ہوجاتا جو کچھ انھوں نے کیا تھا۔یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی۔ پس اگر یہ مکہ والے اس کا انکار کردیں تو ہم نے اس کے لئے ایسے لوگ مقرر کر دئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔ کہہ دو، میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ یہ تو بس ایک نصیحت ہے دنیا والوں کے لئے۔ (6:83-90)
یہ ربانی ماڈل بنیادی طور پر دو اصولوں پر مشتمل تھا- توحید کی پر امن دعوت، رُجز (المدثر،74:3-5) سے کامل پر ہیز۔ ہر پیغمبر نے بنیادی طور پر اسی ماڈل کی پیروی کی۔ البتہ حالات کے اعتبار سے ہر ایک کا انطباق (application) مختلف تھا۔ ان کے درمیان ظاہری فرق کو نظر انداز کیا جائے تو ہر پیغمبر کا ماڈل اصولی طور پر ایک نظر آئے گا۔
رُجز (المدثر،74:5) کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ رُجز کا لفظ یہاں مشن کی نسبت سے آیا ہے۔ اس اعتبار سے غور کیا جائے تو یہاں ترکِ رُجز کا مطلب یہ ہے کہ نزاعی طریقہ (confrontational method) سے پرہیز کرو اور اپنے کام کے سلسلے میں ہمیشہ غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational method) اختیار کرو۔ رُجز کا یہ مفہوم ایک روایت پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایک روایت میں آپ کے بارے میں بتایا گیا ہے :مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ، إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معالے میں سےایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا تو آپ نے آسان طریقہ چنا۔
آسان طریقہ کیا ہے، اور مشکل طریقہ کیا ہے۔ آسان طریقہ وہ ہے جو مسئلے کو مسئلے تک محدود رکھے۔ اس کے مقابلے میں مشکل طریقہ وہ جو اصل مسئلہ میں دوسرے مسئلے کا اضافہ کردے۔ مثلاً یہ بات واضح ہے کہ توحید کا داعی اگر دعوت کے ساتھ ٹکراؤ کا طریقہ شامل کرلے تو یقینا بات بڑھے گی۔ اب پیس فل گفت و شنید کے ساتھ ٹکراؤ اور تشدد کی صورتیں شروع ہوجائیں گی۔ اس طرح پر امن مشن ڈی ریل (derail) ہو کر ایسے راستوں پر چل پڑے گا جہاں اصل مقصد گم ہوجائے گا، اور تعمیر کے بجائے تخریب کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیغمبروں کے حالات قرآن و حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، اس سے اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے۔
پیغمبر کا نمونہ
قرآن میں بتایا گیا ہےکہ جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس سلسلےمیں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (21:25)۔ یہ تمام مقامات جہاں اللہ کے پیغمبر آئے۔ ان میں سے ہر ایک مقام میں شرک کے مراکز، بت خانوں کی صورت میں موجود تھے۔ لیکن تمام پیغمبروں نے دو چیزوں میں فرق کیا۔ انھوں نے ہر جگہ لوگوں کو پر امن طور پر توحید کی اصولی دعوت پیش کی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے شرک کے مراکز (centres of shirk) کے ساتھ عملی ٹکراؤ سے کامل طور پر پرہیز کیا۔ یہ گویا ڈی لنکنگ کی پالیسی (policy of delinking) تھی۔ یعنی توحید کی طرف لوگوں کو پر امن انداز میں بلانا اور اسی کے ساتھ اہل اقتدار سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی پر شدت کے ساتھ قائم رہنا۔
یہی طریقہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ آپ کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوئی۔ اس وقت مکہ کا یہ حال تھا کہ کعبہ کی عمارت کو عملاً بت پرستی کا مرکز بنادیا گیا تھا، اور اس کا انتظام قبائلی پارلیمنٹ (دارالندوہ) کے تحت کیا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منظر کو دیکھا، مگر اس سے عملی طور پر کامل اعراض کرتے ہوئے، آپ نے توحید کی پرامن دعوت لوگوں کے درمیان شروع کردی۔
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشات لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔