مشتبہ اظہار رائے
کچھ لوگوں کا طریقہ ہے کہ وہ کسی کےبارے میں کھل کر رائےنہیں دیتے، البتہ وہ اس کے بارے میں مشتبہ اظہار رائے (doubtful comment) دیتے ہیں۔ اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو 6 ھ کے آخرمیں پیش آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومن ایمپائر کے بادشاہ ہرقل کو دعوتی مکتوب بھیجا۔ اس وقت ہرقل (Hercules)فلسطین میں موجودہ تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں تفصیلی روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس مکتوب کے ملتے ہی ہرقل نے ابوسفیان کوبلایاجو کہ تجارتی سفر کے سلسلے میں اس وقت فلسطین میں موجود تھے۔ ان سے ہرقل کے جو سوالات اور جوابات ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا:قَالَ:فَہَلْ یَغْدِرُ؟ قُلْتُ:لاَ، وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر7)۔ ہرقل نے پوچھا، کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے، ابوسفیان نے کہا : نہیں، اور ہم اس سے ابھی ایک معاہدہ کی مدت میں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم وہ اس میں کیا کرے گا۔
اس واقعے میں ابوسفیان، جو اس وقت اسلام نہیں لائےتھے۔ ان کو صرف یہ کہنا تھا کہ نہیں۔ مگر اس کے بعد انھوں نے اپنے جواب میں جو بات (وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا) کہی۔ یہ رسول اللہ کے کردار کے بارے میں ایک مشتبہ بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قسم کا مشتبہ بیان اسلامی تعلیما ت کےمطابق جائز نہیں۔
اعلیٰ انسانی اخلاق یہ ہے کہ آدمی وہ بات کہے جو عملاً واقعہ بن چکا ہو۔ جو بات واقعہ نہیں بنی، اس کو بیان کرنا زیر بحث شخصیت کے کردار کو مشتبہ بنانے کے ہم معنی ہے۔ یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ خیر (ثابت شدہ) بات بولے، ورنہ چپ رہے:وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُت(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔ یعنی جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر کی بات کہے، یا چپ رہے۔