دعوت حق کا استقبال

عام طور پر یہ خیال ہے کہ اسلام کی دعوت کا کام اگر کیا جائے تو اس کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے یا مخاطبین کی طرف سے داعی کو پتھر مارا جائے۔ اگر داعی کا استقبال پتھر سے نہ کیا جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ دعوت، انبیاء کے نہج پر نہیں ہے۔ وہ پیغمبرانہ دعوت نہیں ہے، بلکہ کوئی اور دعوت ہے۔ اس سوچ کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ بلکہ جو دلیل موجود ہے، وہ اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں اللہ تعالی سے یہ دعا کی: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔ یعنی اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے دور میں دعوتِ دین کے کام کے لیے اللہ کی طرف سے تسہیل کا معاملہ کیا جائے گا، جو پچھلے ادوار میں سخت مشکل کام بنا ہوا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3612)۔اسی چیز کو ایک آیت میں ختم فتنہ کا زمانہ بتایا گیا ہے(البقرۃ، 2:193)۔ قرآن و حدیث کے بیانات کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ بات عقیدہ کے درجے میں ثابت شدہ بن جاتی ہے کہ قدیم زمانہ اگر تعسیر دعوت کا دور تھا، تو بعد کا زمانہ تیسیر دعوت کا دور ہوگا۔اس حقیقت کو نہ ماننا قرآن و حدیث کے نصوص کو نہ ماننے کے برابر ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیسیر کا یہ معاملہ مطلق معنی میں پایا جائے گا، یعنی وہ داعیوں کو خود بخود حاصل ہوجائے گا۔بلکہ یہ ایک موقع (opportunity) کا معاملہ ہوگا۔ یعنی داعی اگر اس کو جانے، اور اس کے مطابق دانش مندانہ انداز میں اپنا دعوتی عمل جاری کرے تو اس کو اس تبدیلی کا فائدہ حاصل ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس فائدہ کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ داعی اپنا کام غیر نزاعی انداز میں کرے۔ اگر اس نے اتھاریٹی سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا، تواس کو ٹکراؤ کے جواب میں ٹکراؤ ملے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom