تذکیر بالقرآن
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ یَخَافُ وَعِیدِ (50:45)۔ یعنی پس تم قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کرو جو میری وعید سے ڈرے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن سے تذکیر یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی وعید یاد دلا کر انھیں متنبہ کیا جائے، اور اس کے مطابق ان کو ذمہ دارانہ زندگی گزارنے پر تیار کیا جائے۔
وعید کا لفظی مطلب ہے، ڈراوا (warning)۔ یہ ڈراوا کیا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈراوا یہ ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ خالق نے اس دنیا میں انسان کو جو نعمتیں دی ہیں، اس کے ساتھ ایک لازمی ذمہ داری وابستہ ہے۔ وہ یہ کہ آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے زندگی میں ملی نعمتوں کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری۔ یہ حقیقت قرآن کی ا ٓیت سے معلوم ہوتی ہے: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ (102:8)۔
انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے، جو اس کے لیے کسٹم میڈ دنیا (custom-made world) ہے۔ پیدا ہوتے ہی انسان کو وہ تمام چیزیں ملنے لگتی ہیں، جن پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ مثلا پانی، غذا، روشنی، آکسیجن، کشش ارض (gravitational pull)، وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں، اور وہ سب پیشگی طور پر زمین کے اوپر مہیا کردی گئی ہیں۔انسان پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پہچانے، وہ ان نعمتوں کو شعور کی سطح پر دریافت کرے، وہ ان نعمتوں کا اعتراف (acknowledge) کرے۔
ان نعمتوں کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں : وَمَنْ یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ(31:12)۔ نعمتوں کے اعتراف کے لیے انسان مجبور نہیں ہے۔ لیکن اعتراف یا بے اعترافی، دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا، یعنی اعتراف پر انعام ہے اور بے اعترافی پر شدید پکڑ- اس حقیقت کو قرآن کے ذریعہ سے کھولنے کا نام تذکیر بالقرآن ہے۔