روزہ برائے ترک

روزہ کے بارے میں ایک حدیث قدسی آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:روزہ (صوم) میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ دار میرے لیے اپنی شہوت کو چھوڑتا ہے۔ وہ میرے لیے اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑتا ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی جب کہ وہ روزہ کھولتا ہے، اور دوسری خوشی جب کہ وہ اپنے رب سے ملے گا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7492)۔

روزہ کی اصل اہمیت اس کی اسپرٹ میں ہے، نہ کہ اس کے فارم میں۔ روزہ کی حقیقت ترک (چھوڑنا) ہے۔ روزہ میں روزہ دار یہ کرتا ہے کہ وہ مخصوص اوقات میں عارضی طور پر کھانا اور پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس چھوڑنے کے عمل کا اللہ کے یہاں بہت بڑا درجہ ہے۔ بشرطیکہ یہ چھوڑنا خالص اللہ کے لیے ہو۔ روزہ میں کھانے اور پینے کا ترک علامتی ترک ہے۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ روزہ دار اپنی عادت کو یا اپنی کسی محبوب چیز کو اللہ کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دے۔

سچا روزہ دار وہ ہے جو رمضان کے مہینہ میں یہ طے کرے کہ وہ اپنی قابل ترک عادتوں کو دریافت کرے گا۔ اور ہر دن کم از کم ایک عادت کو اللہ کے لیے چھوڑ دے گا۔ یہ گویا اللہ کے لیے ایک خود انضباطی (self-discipline) کا معاملہ ہے۔

اس خود انضباطی کے عمل میں چھوڑنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلا ایک سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنا۔ مجلس میں ہنسنا اور مذاق اڑانا۔ ایک آدمی بول رہا ہو تو اس کی بات ختم ہونے سے پہلے بولنا۔ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا نہ کرنا۔ غیر سنجیدہ گفتگو کرنا۔ منفی رویہ اختیار کرنا۔ ایک دوسرے پر فخر کرنا۔ بات چیت میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کرنا۔ دسترخوان پر کھانا اور پانی چھوڑنا۔ تکلف کا طریقہ اختیار کرنا۔ دھکا دے کر آگے بڑھنا۔ دلیل کے بجائے عیب جوئی کی زبان بولنا۔زیادہ بولنا یا زور زور سے بولنا، وغیرہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom