اسلامی روحانیت
اسلامی روحانیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے تخلیقی روحانیت (creative spirituality) کا نام ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل ایسے مومن کی ذہنی پیداوار ہے، جو مسلسل تدبر کے ذریعہ اس قابل ہوگیا ہو، جو روحانی آئٹم (content of spirituality) کو چیزوں سے دریافت کرسکے، اور اس طرح اپنی روحانیت کو ترقی یافتہ رروحانیت بنائے۔
قرآن میں اس عمل کو شہد کی مکھی کے عمل کی مثال سے واضح کیا گیا ہے (النحل، 16:68)۔ شہد کی مکھی پھولوں کے اندر موجود نکٹر (nectar) کو نکالتی ہے، اور اس کے مجموعے سے وہ انوکھی چیز بناتی ہے، جس کو شہد کہا جاتا ہے۔ یہی معاملہ ترقی یافتہ انسانی ذہن کا ہے۔ اس معاملے کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
یہاں قرآن میں آیت سے مراد روحانی نکٹر (nectar of spirituality) ہے۔ مومن کا تیار ذہن جب زمین و آسمان کو دیکھتا ہے۔ تو وہ بار بار چیزوں میں چھپے ہوئے روحانی نکٹر کو دریافت کرتا ہے، اور پھر اس کو اخذ کرکے اپنی فکری ارتقا کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک روحانی شخصیت جاگتی ہے۔ اس طرح اس کی سوچ ترقی کرتے کرتے اس کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنادیتی ہے۔
زمین و آسمان کے اندر یہ روحانی نکٹر مادی صورت میں نہیں ہے، جیسا کہ شہد کی مثال میں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ امکان (potential)کے روپ میں ہے، جو دریافت کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی حیثیت مادی نکٹر کی ہے، اور روحانی آئٹم کی حیثیت توسم کے ذریعہ اخذ کردہ اسپریچول وزڈم (spiritual wisdom) کی۔