الرسالہ مشن
الرسالہ مشن کے تعلق سےمیں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ مائنڈ بیسڈ معرفت، اور پیس بیسڈ ایکٹوزم۔ لیکن میرا خیال ہے کہ الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری ہے: منصوبہ تخلیق کے مطابق دین کی صحیح تعبیر پیش کرنا۔ پہلی دو نوں باتیں اس کی عملی شکلیں ہیں، اقدام کی دنیا میں عملی طور پر یہ دونوں بڑی ڈسکوری ہیں۔مولانا اس پر کچھ تبصرہ فرمائیں۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
میں کہوں گا کہ میری سب سے بڑی ڈسکوری اللہ کی دریافت ہے۔ اللہ کی دریافت سے مراد اللہ کو حی و قیوم کی حیثیت سے شعوری طور پر جان لینا۔ میرے علم کے مطابق اس ڈسکوری میں شاید میں اکیلا ہوں۔ اگر آپ کو اس کا تجربہ کرنا ہے تو آپ دنیا کے کسی بڑےعالم کی مجلس میں ایک گھنٹہ بیٹھیے اور دیکھیے کیا آپ کو اس مجلس میں خدا کا زندہ تذکرہ ملتا ہے،یا پھر کسی کتب خانہ میں جاکر تلاش کیجیے کہ کیا کسی شخص نے اللہ رب العالمین کے وجود پر کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے۔ کیا آپ کسی ایسی تحریک کو جانتے ہیں، جس کا مرکز و محور صرف اللہ ہو۔ میرے علم کے مطابق لوگ اللہ پر رسمی عقیدہ تو رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے شعوری طور پر اللہ رب العالمین کو ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے دریافت نہیں کیا۔
اللہ کی دریافت ایک چیز کی دریافت نہیں ہے، بلکہ اللہ کی دریافت تمام چیزوں کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو اللہ کی دریافت ہوجائے، اس کو زندگی کا سرا مل جائے گا۔ وہ زندگی کی حقیقت کو گہرائی کے ساتھ جان لے گا۔ اس کو زندگی کے آغاز اور زندگی کے انجام کی معرفت ہوجائے گی۔ وہ ہر چیز کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس کو معرفت کا وہ سرا مل جائے گا، جس کی روشنی میں وہ تمام چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اللہ کی دریافت سے پہلے انسان نہ اپنے آپ کو حقیقی طور پر جانتا ہے، اور نہ بقیہ کائنات کو۔وہ نہ تاریخ کو جانتا ہے، اور نہ تعبیر تاریخ کو۔
میری ڈسکوری کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ جانتے ہیں کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو رحمۃ للعالمین (الانبیاء، 21:107)بنا کر بھیجا۔ اس عقیدہ کو لے کر ساری دنیا کے مسلمان رسول اللہ کی نعت خوانی کررہے ہیں، نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ قرآن میں جس چیز کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے، اس کو تمام دنیا کے مسلمان شخصی منقبت کے معنی میں لیے ہوئے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت میں ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے۔
وہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے تاریخ میں ایک انقلاب برپا کیا۔ جس کا حوالہ قرآن میں اتمام نور (التوبۃ، 9:32۔الصف، 61:8) کے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اتمام نور کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ذریعے تاریخ میں ایک عالمی انقلاب برپا کیا جائے گا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ایک بہت بڑا واقعہ پیش آئے گا۔ وہ ہے آفاق و انفس کی آیات (فصلت، 41:53) کا منکشف کیا جانا۔ اس عمل (process) کے نقطۂ انتہا (culmination)پر وہ عظیم حقائق ظاہر ہوئے جن کو اللہ رب العالمین کی معرفت کا کائناتی خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ انقلاب وہی تھا جس کو جدید سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار وہ سائنٹفک فریم ورک انسان کے علم میں آیا، جو اللہ رب العالمین کی اعلیٰ معرفت کا دفتر ہے۔
میں نے اپنے مطالعے کے ذریعے اس حقیقت کو دریافت کیا، اور سائنسی فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ رب العالمین کی اعلیٰ معرفت تک پہنچا۔ یہ ربانی معرفت بلاشبہ میرا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اگر میں اس فریم ورک سے بے خبر ہوتا تو شاید میں ایک اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے جیتا اور اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے مرتا۔ رسول اللہ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا ایک ناقابل بیان پہلو یہ ہے کہ آپ کے ذریعے وہ انقلاب آیا، جس نے اللہ کی اعلیٰ معرفت تک رسائی کو ہر انسان کے لیے ممکن بنادیا، اور بلاشبہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔معرفت صرف ایک چیز نہیں، وہ تمام مطلوب چیزوں کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔