عذاب سے نجات
قرآن میں بنی اسرائیل (یہود) کے حوالے سے ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذْ نَجَّیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ (2:49)۔ یعنی اور جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی۔ وہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بھاری آزمائش تھی۔
یہ اس واقعہ کا ذکر ہے، جب کہ قدیم مصر میں یہود کو فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے ظلم کا سامنا تھا، اور پھر اللہ نے اس سے نجات دی۔ موجودہ زمانے میں نجات کا یہی واقعہ امت مسلمہ کے ساتھ پیش آیا۔ یہود کے ساتھ قدیم عذاب در اصل مذہبی تعذیب (religious persecution) کا واقعہ تھا۔ موجودہ زمانے میں امت مسلمہ کے ساتھ بھی زمانی فرق کے ساتھ اسی قسم کا تجربہ پیش آیا۔ یہ تجربہ زیادہ تر سیاسی جبر (political persecution) کی بنا پر تھا۔ اللہ تعالی نے ایسے حالات پیدا کیے کہ دنیا سے سیاسی جبر کا نظام ختم ہوگیا، اور آزادانہ جمہوریت کا نظام ساری دنیا میں قائم ہوگیا۔ 1945 میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی، اور دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ طے ہوا کہ اب کسی بھی شخص یا گروہ پر مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا جبر یا تشدد نہیں کیا جائے گا۔
اب دنیا کامل مذہبی آزادی کے دور میں ہے۔ اب اگر کسی گروہ کو جبر یا تشدد کا سامنا پیش آئے تو وہ خود اس کی اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کی بنا پر ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ لوگوں نے’’آبیل مجھے مار‘‘ کی سیاست اختیار کی۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص یا گروہ حقیقی معنوں میں پر امن طریق کار کو اختیارکرتے ہوئے اپنا کام کرتا ہے تو اس کو ہرگز کسی سے کسی قسم کے جبر یا تشدد کا سامنا پیش نہیں آئے گا۔ قدیم زمانے میں یہود کو ظلم سےجو’’ نجات‘‘ ملی تھی، موجودہ زمانے میں اس سے بہت زیادہ بڑی ’’نجات‘‘ اہل اسلام کو مل چکی ہے۔ اب ان کے لیے شکر کا موقعہ ہے، نہ کہ شکایت کا موقعہ۔