دور قدیم، دور جدید
دور قدیم اور دور جدید اصلاً یہ ہے کہ دور قدیم مبنی بر عقیدہ علم پر قائم تھا،اور دور جدید مبنی بر دریافت علم پر قائم ہے۔ سائنس اسی کا نام ہے کہ علوم فطرت کے مطالعے سے جو چیز دریافت ہو، اس کو مان لیا جائے، اور جو چیز فطرت کے مطالعے سے دریافت نہ ہو، اس کو انتظار کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ گلیلیو کے زمانے میں جو نزاع تھی، وہ یہی تھی کہ ٹیلسکوپ (telescope) کے مطالعے سے یہ دریافت ہوا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یعنی ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory)، نہ کہ جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory)۔ مسیحی طبقہ اپنے روایتی عقیدہ کے مطابق اس کے خلاف ہوگیا۔ اس لیے دونوں کے درمیان متشددانہ نزاع قائم ہوگئی۔ اب مسیحی طبقہ نے سائنسی دریافت کو مان لیاہے، اس لیے اب یہ نزاع بھی ختم ہوگئی۔
سائنس کا علم، نہ موافق مذہب علم ہے اور نہ مخالف مذہب علم۔ سائنسی علم در اصل موافق فطرت (pro-nature knowledge) کا نام ہے۔ سائنس سے نزاع کرنا، ایک غیر ضروری کام ہے۔ کیوں کہ سائنس کا موقف کسی نزاع سے متعین نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس حقیقت سے متعین ہوگا کہ فطرت کے مطالعے سے کیا بات درست ثابت ہوئی ہے۔اہل اسلام کے لیے اس معاملے میں یہ سبق ہے کہ وہ مسیحی گروہ کی غلطی کو نہ دہرائیں۔ سائنسی دریافتوں کو وہ مذہبی عقیدہ سے نہ جانچیں۔ بلکہ اس کی واقعیت کو فطرت کے دریافت شدہ قانون کی روشنی میں جانچ کر دیکھیں۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ وہ مغربی سائنس اور مغربی کلچر میں فرق کریں۔ مغربی سائنس مبنی بر دریافت علم کا نام ہے۔ اس کے برعکس، مغربی کلچر مغربی سوسائٹی کا حصہ ہے۔ وہ ایک سماجی ظاہرہ ہے، نہ کہ کوئی علمی طور پر دریافت شدہ حقیقت۔ سائنس کا تعلق حدیث کے مطابق، بصیرت زمانہ سے ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :على العاقل أن یکون بصیراً بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ یعنی مومن عاقل پر ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔