تشدد کا سبب عدم قناعت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1054) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے، اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے، اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔ قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے، وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میں مبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیں کرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔