سفرنامہ کلچر
مسلمانوں کے جرائد میں اکثر سفرنامے کا کالم ہوتا ہے۔ اس کالم میں کوئی شخص اپنے سفر کے واقعات کو بیان کرتا ہے۔ سفرنامے کا یہ کالم قارئین کے لیے ایک دلچسپی کا صفحہ ہوتا ہے۔ وہ شوق کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات جریدے کے اُس صفحے کو سب سے پہلے پڑھتے ہیں، جس میں کوئی سفرنامہ شائع ہوا ہو۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ سفرنامے تقریبا ًسب کے سب قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
آیات سے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران مسافر کو مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات پیش آتے ہیں۔ ان مشاہدات اور تجربات میں کوئی نہ کوئی سبق کا پہلو ہوتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی نشانی ہوتی ہے، جو خدا اور آخرت کو یاد دلاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو مسافر کے اندر دینی تڑپ جگادے۔ مگر یہ سفرنامے اس قسم کے آئٹم سے تقریباً خالی ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک اور متعلق آیت یہ ہے:قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ(29:20)۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا، پھر وہ اس کو دوبارہ اٹھائے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ’’چلو پھرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین میں تمھارا چلنا پھرنا ہو تو تم سفر کے دوران فطرت کےمناظر سے سبق لو۔تم تاریخ کے واقعات سے عبرت حاصل کرو۔ سفر مومن کے لیے اس کی دینی زندگی کا امتداد (extension) ہے۔ حقیقی سفرنامہ وہ ہے جو قاری کے لیے سبق نامہ بن جائے، نہ کہ صرف آمد ورفت نامہ۔