دین میں عقل کا استعمال

دین میں عقل کا استعمال بلاشبہ عین درست ہے۔ خود قرآن میں لُبّ (عقل) کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے(ص 29:)۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی یونانی کلامیات کے ماڈل پر اسلام کو جانچنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ الرازی (وفات:311ھ) اور الجوینی (وفات478:ھ) جیسے لوگوں نے کیا۔ قدیم زمانے میں مسلم متکلمین نے دین میں عقل کو استعمال کیا تو اس پر علماء نے سخت نکیر کی۔ مثلاً امام مالک ابن انس، اور امام ابویوسف نے کہا تھا: من طلب الدین بالکلام تزندق (ذم الکلام وأہلہ للہروی، المدینة المنورة، 1998، 5/71 & 202)۔ یعنی جس نے دین کو کلام کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا، وہ زندیق ہوگیا۔ یہ قول بجائے خود بلاشبہ درست ہے۔ لیکن وہ خود عقل کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ عقل کے ایک غلط استعمال کے اعتبار سے ہے، جوکہ حقیقت میں لفظی موشگافی تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں عقل۔ حقیقت یہ ہےکہ عقل کا ارتقا صحیح معنوں میں اس وقت سے ہوا، جب کہ دنیا میں عقلی سائنس (scientific reasoning)وجود میں آئی۔

د ین میں عقل کے استعمال کا مطلب ہے کہ دینی مسائل کے معاملے میں عقلی اطمینان (البقرۃ:260) حاصل کرنا۔ تاکہ انسان جب اس دنیا سے جائے تو قلب سلیم (الشعراء:89) کے ساتھ جائے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی ایک آیت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: تو بہ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے (4:17)۔

قرآن کی اس آیت میں توبۂ قریب (speedy repentance)کا لفظ کیوں آیا ہے۔اس کا جواب علم النفس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین حصے ہیں۔ شعور (conscious mind)، تحت شعور (sub conscious mind)، لا شعور (unconscious mind)۔ یہ فرق انسان کی فطری ساخت کے مطابق ہے۔ جب آدمی غلطی کرتا ہے تو ابتداءاً غلطی کا شعور اس کے زندہ حافظہ (living memory)میں ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی اگر اپنا محاسبہ (introspection)کرے تو ابتدائی مرحلہ میں آدمی اپنی غلطی کو شدت کے ساتھ محسوس کرے گا، اور جلد ہی وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرلے گا۔

لیکن اگر آدمی محاسبہ میں دیر کرے۔ تو اس کے بعد غلطی کا احساس اس کے زندہ شعور سے گزرکر اس کے دماغ کے اس حصہ میں چلاجائے گا، جس کو تحت شعور کہا جاتاہے۔ اب غلطی کے بارے میں اس کے اندرحساسیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ آدمی نے اگر اب بھی اپنا محاسبہ نہیں کیا تواس کے بعد تیسرا درجہ یہ آتا ہے کہ غلطی کا احساس آدمی کےلاشعور میں چلاجاتا ہے۔ اس تیسرے درجے کو پہنچنے کے بعد آدمی کے اندر غلطی کے بارے میں کامل غفلت کا دور آجاتا ہے۔ اسی کو قرآن میں طول امد سے قساوت کاپیدا ہونا بتایا گیا ہے (الحدید:16)۔ اسی نفسیاتی تجزیے کا دوسرا نام دین کے معاملے میں عقل کا استعمال کرنا ہے۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک اور آیت قرآنی کا مطالعہ کیجیے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (49:2)۔

اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صرف پیغمبر کی فضیلت یا پیغمبر کے معاملے میں ادب کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اصلاً وہ دین خداوندی کے اعتبار سے ہے۔ حبطِ اعمال کا یہ واقعہ پیغمبر کی مجلس میں بھی پیش آسکتا ہے، اور پیغمبر کی مجلس کے باہر بھی۔ اصل یہ ہے کہ جب دین خداوندی کی کوئی بات ہو تو انسان کو چاہیے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ وہ اس کوسنے۔ اگر وہ اس کو ایک غیر اہم بات کی طرح سنے گا تو دھیرے دھیرے وہ اس معاملے میں قساوت کا شکار ہوجائے گا، اور پھر بے شعوری کے اس درجے پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا ہی ممکن نہ رہے گا۔ ایسے آدمی کا یہ انجام اس لیے ہوگا کہ اس نے قانون فطرت کے مطابق پہلے مرحلہ میں اپنا محاسبہ نہیں کیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom