عقل کا فقدان
امت کے بعد کے دور کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے: ذکر رسول اللہ ہرجا بین یدی الساعة حتى یقتل الرجل جارہ وأخاہ وابن عمہ، قالوا:ومعنا عقولنا یومئذ؟ قال:تنزع عقول أکثر أہل ذلک الزمان، ویُخَلَّف لہا ہیماء من الناس، یحسب أحدہم أنہ على شیء ولیس على شیء(الفتن لنعیم ابن حماد، قاہرۃ، 1412ھ، حدیث نمبر115)۔ یعنی رسول اللہ نے قیامت سے پہلے پیش آنے والے ہرج (فتنہ) کا ذکر کیا،(اور کہا کہ) یہاں تک کہ آدمی قتل کرے گا اپنے پڑوسی کو، اور اپنے بھائی، اور اپنےچچاکے بیٹے کو۔ لوگوں نے پوچھا: کیا ان دنوں ہمارے پاس عقل ہوگی۔ آپ نے کہا:اس زمانے میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور دیوانوں کے مانند لوگ بچیں گے۔ان میں سے کوئی شخص یہ سمجھے گا کہ وہ کسی چیز پر ہے، حالاں کہ وہ کسی چیز پر نہ ہوگا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں یہ ظاہرہ اس بنا پر پیدا ہوگا کہ امت مسلمہ اپنے پہلے دور میں سیاسی عروج پر پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد قانونِ فطرت کے تحت اس کا اقتدار اس سے چھن جائے گا، دوسری قومیں اس کی جگہ غلبہ کا مقام حاصل کر لیں گی۔ اس دور میں امت کے اندر وہ ظاہرہ پیدا ہو گا جس کو عظمت رفتہ کا جنون (paranoia) کہا جاتا ہے۔ یہ احساس امت کے افرادکے اندر سخت قسم کی انتقامی دیوانگی پیدا کردے گا۔ امت کے افراد دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ وہ ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھ لیں گے۔ وہ انتقامی نفسیات کے تحت چاہیں گے کہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو مٹا ڈالیں۔یہاں تک کہ وہ خود اپنے لوگوں کے دشمن ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہ ان کو یہ سمجھنے لگیں گے کہ وہ ان کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ امت کے لیے عقل کے فقدان کا وقت ہوگا۔ وہ ایسے کام کریں گے جن کا تعلق عقل و دانش سے نہ ہوگا۔لیکن وہ بطور خود یہ سمجھیں گے کہ وہ عقل پربھی ہیں، اور اسلام پر بھی۔