درجات کی بلندی
قرآن میں ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قِیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّہُ لَکُمْ وَإِذَا قِیلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ (58:11)۔ یعنی اے ایمان والو، جب تم کو کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل کر بیٹھو تو تم کھل کر بیٹھو، اللہ تم کو کشادگی دے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو تم اٹھ جاؤ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان والے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے، اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جو بظاہر معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس پر افنڈ (offend) ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میرے ساتھ امتیازی سلوک (discrimination) کا معاملہ کیا گیا، میرے اوپر تنقید کی گئی۔ میرے کام کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ مجھے نیچادکھانے کے لیے میرے خلاف سازش کی گئی۔ میں ترقی کا مستحق ہوں، لیکن لوگ مجھ کو ترقی دینا نہیں چاہتے۔ میں نے کام زیادہ کیا تھا، لیکن مجھے اس کا معاوضہ کم ملا۔ لوگ میرے حاسد بن گئے ہیں، اس لیے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا، ان کو گوارا نہیں۔ جس درجے کا میں مستحق تھا، وہ درجہ مجھے نہیں دیا گیا، وغیرہ۔
اس قسم کی باتیں ہمیشہ غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ لوگ اس قسم کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن کے اندر دانش مندی (wisdom) پائی جاتی ہے، وہ اس قسم کی تمام باتوں کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں، یا ان کا مثبت انداز میں تجزیہ کرکے اپنے آپ کو بگاڑ سے بچالیتے ہیں۔جو لوگ اس طرح کے مواقع پر اپنے آپ کو منفی تاثر سے بچائیں، وہ اللہ کی خصوصی نصرت کے مستحق بن جاتے ہیں، اس کے بعد ان کے اندر مزید فکری ترقی ہوتی ہے، جو ان کے درجات کو بڑھانے والی ثابت ہوتی ہے۔