دین ایک، شریعت مختلف
اللہ رب العالمین نے انسان کی ہدایت کے لیے ہرزمانے میں پیغمبر بھیجے۔ایک روایت کے مطابق، ان پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام انبیاء کا دین ایک تھا، البتہ ان کی شریعتیں مختلف تھیں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْہَاجًا (5:48)۔ یعنی ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔
تمام پیغمبروں کا دین ایک تھا، اوروہ دین، دینِ توحید تھا (الشوریٰ 13:)۔یہاں دین سے مراد دینِ توحید ہے۔ یعنی مبنی بر توحید آئڈیا لوجی۔ توحید کی حیثیت ایک ابدی نظریہ (eternal ideology) کی ہے۔ یہ دین کا وہ پہلو ہے جو صلۃ العبد بربہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی بندہ اور خدا کے درمیان تعلق کا معاملہ۔ یہ ہمیشہ ایک رہا ہے، اور ہمیشہ ایک رہے گا۔
جہاں تک شریعت کا معاملہ ہے، تو وہ بندہ اور دوسرے انسانوں کے درمیان تعلق سے قائم ہوتا ہے۔ بندہ اور بندہ کے معاملے میں تعلق کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ مثلا کبھی حاکم اور محکوم کا رشتہ، اور کبھی انسان اورانسان کا رشتہ، وغیرہ۔ اس لیے اس دوسرے معاملے میں قانون کا ڈھانچہ ہمیشہ ایک نہیں ہوسکتا، وہ حالات کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔
مختلف انبیاء کے درمیان شرائع کا اختلاف اسی بنیاد پر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں انبیاء کے درمیان شریعت کا اختلاف ہوتا تھا، اور اب پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں شریعت ہمیشہ ایک رہے گی۔ یعنی ساتویں صدی عیسوی سے لے کر قیامت تک۔اصل یہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں بھی شریعت کا معاملہ وہی رہے گا، جو اس سے پہلے پچھلے انبیاء کے زمانے میں تھا۔ پیغمبر آخر الزماں کے زمانے میں بھی جب حالات بدلیں گے تو ضرورت ہوگی کہ اجتہاد کرکے شریعت محمدی کی نئی تطبیق (new application) دریافت کی جائے۔