امن کا معاملہ
دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو پوٹنشل (potential) کی صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس پوٹنشل کو دریافت کریں، اور پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔ مثلا درخت کا پھل آپ کو خود سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ زرخیر زمین (soil) میں ایک پودا لگائیں۔ اس کی نگہداشت کرتے ہوئےاس کو اگانا شروع کریں۔ اس طرح وہ وقت آتا ہے، جب کہ درخت ایک مکمل درخت بن جائے، اور اپنا پھل آپ کو دینا شروع کرے۔
یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ آج ہم ایج آف پیس میں جی رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن ایک زندہ امکان کے طور پر ہر جگہ موجود ہوچکا ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ امن کو اسپرٹ آف دی ایج کی حیثیت سے دریافت کریں، اور پھر اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر کے کامیابی حاصل کریں۔ کامیابی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے، آئڈیالوجی اور میتھڈ۔ قدیم زمانے میں انسان کے پاس اگر آئڈیالوجی موجود ہو تب بھی کامیابی کا حصول سخت مشکل ہوتا تھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم زمانے میں صرف پرتشدد طریقہ کار (violent method) ہی قابل حصول تھا۔ پر امن طریقہ کار قدیم زمانے میں قابل عمل ہی نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں امن ہر انسان کا ایک حق (right) بن چکا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے کسی کو تشدد کا جواز (justification) فراہم نہ کرے تو یقینی طور پر وہ تشدد سے محفوظ رہ سکتا ہے۔آدمی صرف پرامن طریقہ کار کے ذریعہ ہی اپنے مقصد کو پوری طرح حاصل کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ آدمی ’’آبیل مجھے مار‘‘کی غلطی نہ کرے۔ اگر انسان ایسا کرسکے تو بلاشبہ وہ امن کو اپنے لیے یقینی بناسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آدمی اگر اپنے آپ کو اشتعال انگیزی (provocation) سے بچائےتو یقینی طور پر وہ دوسروں کے ظلم سے محفوظ رہے گا۔