شتم رسول
شتم رسول (blasphemy) کا تصور اسلام میں اجنبی ہے۔ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی اس کا حکم موجود نہیں۔ بعد کے دور میں کچھ علماء نے بطور خود یہ تصور وضع کیا، اور اس کو اسلام کا قانونی حصہ بنا دیا۔ پیغمبر اسلا م کو دعوت الی اللہ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی خدا کے پیغام سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ قرآن میں پیغمبرکے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ (88:21-22)۔ یعنی تم یاد دہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو، تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو۔یہی ذمہ داری امت محمدی کی ہے۔زندگی کے اسلامی نقشہ میں اس تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں کہ جو شخص مفروضہ شتم کا ارتکاب کرے، اس کو مارڈالو۔ شتم کی اصل حقیقت اختلاف ِ رائے (difference of opinion) ہے۔
انسانی آزادی کی بنا پر دنیا میں اختلاف رائے کا معاملہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ شخص جس کو مسلمان بطور خود شاتم کہتے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اختلافی رائے رکھنے کا کیس ہے، نہ کہ شتم کا کیس۔ ایسے انسان کو دلیل کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص آپ کو مختلف رائے رکھنے والا ملے تو آپ کو اس سے پیس فل ڈسکشن کا حق ہے، نہ کہ اس کو مارنے کا حق۔ ایسا انسان مجرم (criminal) نہیں ہے۔وہ خدا کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کا کیس ہے۔ جو لوگ ایسے انسان کو قتل کرنے کا اعلان کریں، وہ خود غلط کار ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم۔
امت محمدی کا مشن پر امن مشن ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو یہ اللہ رب العالمین کے دائرےکا کیس ہے، وہ کسی انسان کے دائرےکا کیس نہیں۔ جو لوگ ایسے انسان کو شاتم رسول کہہ کر اس کو قتل کرنا چاہیں، وہ خود انسانی دائرے سے نکل کر اللہ کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم رسول۔