مدح، تنقید

احادیث میں کثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: إذا رأیتم المداحین، فاحثوا فی وجوہہم التراب(صحیح مسلم، حدیث نمبر 3002) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے:سمع النبی صلى اللہ علیہ وسلم رجلا یثنی على رجل ویطریہ فی مدحہ، فقال:أہلکتم أو قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، حدیث نمبر 2663)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔

اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الادب المفرد، حدیث نمبر 336)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل عقرک اللہ (الأدب المفرد، حدیث نمبر335) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔

حدیث اور آثارکی کتابوں میں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میں اُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔

تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میں تنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔

ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میں ہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میں تنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔

تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میں چیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔

اس معاملہ کی تفصیل میں نے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاں تک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز۔ تنقید بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہ ایک غیر مطلوب چیز۔

تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میں خالص موضوعی انداز میں کسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔

اس کے برعکس، تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔

 

تبیین حق سے مراد دعوت اعظم ہے۔ یعنی اعلیٰ ترین سطح پر دعوت حق کی ادائیگی۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی آیات کے ذریعےحق کی اعلیٰ تبیین کہا گیا ہے، اور حدیث میں اس کو شہادت اعظم کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom