دعوت اور ظلم
بہت سے مسلمان ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم ہورہاہے۔ تو ہمیں ظلم کے خلاف لڑائی بھی کرنی ہے۔ ہم کو دونوں کام کرنا ہے، ہم کو دعوت کا کام بھی کرنا ہے، اور اسی کے ساتھ ہم کو ظلم کے خلاف لڑنا بھی ہے— یہ قرآن کی زبان نہیں ہے، بلکہ وہ قومی لیڈر کی زبان ہے۔ قرآن کے مطابق، دعوت کا کام کرنےکی پہلی شرط یہ ہےکہ داعی اپنے مدعو کا ناصح (خیرخواہ) بنے۔ اگر خیر خواہی نہیں تو دعوت بھی نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّکَ (22:67)۔ پس اس معاملہ میں وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔
وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں، یہ ایک عربی اسلوب ہے۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ لایضربنک زید۔ اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زید ہرگز تم کو نہ مارے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ زید کو ہرگز مارنے کا موقع نہ دو۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق داعی کو ظلم کے مقابلے میں صبر کرنا ہے، نہ کہ لڑائی کرنا۔ داعی کو اپنے مدعو سے کسی حال میں لڑنا نہیں ہے۔ اگر چہ بظاہر یہ دکھائی دے کہ مدعو ظلم کررہا ہے تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ ظلم کو مینج (manage) کرے، نہ کہ ظلم کے نام پر مدعو سے لڑائی کرے۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک خالص اخروی کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں انذار و تبشیر کا کام کہا گیا ہے۔ دعوت کا کام یہ ہے کہ انسان کو یہ بتایا جائے کہ اللہ رب العالمین کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے متقی انسان کی حیثیت سے ڈیولپ کرےکہ آخرت میں اس کو ابدی جنت میں داخلہ دیا جائے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو غیر قومی بھی ہے، اور غیر سیاسی بھی۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ دفاعی جنگ حاکم کا معاملہ ہے۔ داعی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔