بزدلی یا حکمت
میرا تجربہ ہے کہ جب لوگوں کے سامنے صبر کے اصول کو بتایا جائے تو وہ اس کو گوسفندی کا اصول یا بزدلی کا اصول سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کا رد عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگوں میں صحیح طور پر نہ عقلی غور و فکر کاارتقا ہوا، اور نہ اسلامی غور و فکر کا۔ یہ لوگ ایسے رہنماؤں سے متاثر ہوئے ہیں، جو خطابت اور شاعری، اور انشا پردازی کی زبان میں لکھتے اور بولتے ہیں، اور لوگ تجزیہ (analysis) سے بے خبر ہونے کی بنا پر ان کو درست مان لیتے ہیں۔
سوچنے کا آغاز یہاں سے ہونا چاہیے کہ قرآن میں اتنا زیادہ کیوں صبر (patience)کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ ہرشخص کو اپنے قول و فعل کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے، اور چاہے تو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ یہ خالق کی عطا کردہ آزادی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔
اب انسان کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ یا تو وہ ناموافق حالات سے ٹکراؤ کے بجائے ان کوپرامن اندازمیں مینج کرنے کا طریقہ اختیار کرے، اور اس طرح کسی مزید نقصان سے بچتے ہوئے ممکن دائرے میں اپنا مقصد حاصل کرے، یا ابدی طور پر لوگوں سے لڑتا رہے، اور زندگی میں کبھی کوئی بامعنی مقصد حاصل نہ کرسکے۔
صبر بزدلی نہیں، وہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ ناموافق صورت حال پیدا ہونے کے بعد آدمی ٹکراؤ کو اوائڈ کرے۔ وہbuying time کی حکمت کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے عمل کی پرامن منصوبہ بندی کرے۔ وہ فطرت کے اس اصول کوجانے کہ اس کے لیے کیا چیز قابل حصول ہے، اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ کون سا طریقہ اس کو بے مقصد تباہی تک لے جاتا ہے، اور کون سا طریقہ بامقصد جد و جہد کی طرف۔صبر در اصل دانش مندانہ منصوبہ بندی کا نام ہے۔