روشن ہدایت
دینِ اسلام ہر اعتبار سے ایک واضح دین ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قد ترکتکم على البیضاء لیلہا کنہارہا، لا یزیغ عنہا بعدی إلا ہالک (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر43)۔ یعنی میں تمھارے پاس ایک روشن دین چھوڑ رہا ہوں، اس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح ہیں، میرے بعد کوئی اس سےدور نہیں ہوگا سوائے اس آدمی کے جو ہلاک ہونے والا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب دین اتنا واضح ہے تو اس میں اختلافات کیوں۔ قرآن کی تفسیر میں اختلاف، حدیث کی شرح میں اختلاف، فقہی مسائل میں اختلاف، وغیرہ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ لیکن آپ کے بعد نماز کے مسائل میں اتنے اختلافات ہوئے کہ مسلمانوں کے درمیان کئی مستقل فقہی اسکول بن گئے، وغیرہ۔
یہ اختلاف ایک مطلوب اختلاف ہے۔ یہ اختلاف اس لیے ہے تاکہ لوگ اس پر تدبر کریں۔لوگ خود اپنے ذہن کو استعمال کریں۔ یہاں تک کہ ہر شخص دین کو ری ڈسکور (rediscover) کرے، ہر آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔
نجران کے کچھ حق کے متلاشی لوگ مدینہ آئے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچائی کو دریافت کریں۔ یہ قصہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83)۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کو سنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کی معرفت حاصل کر لی۔
آیت میں و اذا سمعوا کے بعد بظاہر علموا (انھوں نے جان لیا)آنا چاہیے تھا۔ مگر یہاں عرفوا کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سننے کے بعد ابتدائی طور پر انھوں نے سچائی کو صرف جانا تھا۔ مگر اپنی طرف سے تدبر کا اضافہ کرکے انھوں نے اپنے جاننے کو معرفت (self-discovery) بنایا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
انسا ن کو اس کے خالق نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (91:8)۔ انسان کے آس پاس جو دنیا ہے جس کو قرآن مجید میں زمین و آسمان کے الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میں ایسی آیات (signs) ہیں جو خاموش زبان میں سچائی کا اعلان کررہے ہیں۔ تاریخ کے تمام واقعات دین خداوندی کے صداقت کے گواہ ہیں۔ نیز یہ کہ پیغمبر کے ذریعہ قرآن و سنت کی صورت میں ہدایت کا پورا سامان انسان کے لیے مہیا کردیا گیا ہے، وغیرہ۔
اس کے باوجود قانون فطرت کے مطابق، دنیا کی تمام چیزوں کے ساتھ ہمیشہ ایک شبہ کا عنصر (element of doubt) موجود رہتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ (7:8-9)یعنی اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتا را گیا۔ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا، پھر انھیں کوئی مہلت نہ ملتی۔ اور اگر ہم کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے تو اس کو بھی آدمی بناتے اور ان کو اسی شبہ میں ڈال دیتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
سچائی کی ہدایت اگرچہ انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے دی گئی ہے۔ لیکن اللہ کو یہ منظور ہے کہ وہ اپنے ہدایت یاب بندوں کو اس بات کا کریڈٹ دے کہ انھوں نے اپنی عقل کو استعمال کرکے ذاتی طور پر سچائی کو دریافت کیا۔ اختلافات کے جنگل میں وہ خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے ایک مزید عنایت کا معاملہ ہے۔