الأئمۃالمضلون

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أن أخوف ما أخاف علیکم الأئمة المضلون(مسند احمد، حدیث نمبر 27485)۔ یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے لیڈر ہیں۔

اس حدیث میں بعد کو آنے والے جس زمانہ کاذکر ہے اُس سے مراد غالباً صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں ظہور میں آنے والا تھا۔ جب کہ امت مسلمہ واحد حامل دین کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گی۔ اس لیے آپ نے اس معاملہ کو اپنی امت کی طرف منسوب فرمایا۔ واضح ہوکہ دوسری روایتوں میں علیکم کے بجائے علی امتی (مسند احمد، حدیث نمبر21297) کے الفاظ آئے ہیں۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں گمراہ کن لیڈر کے ظہور کے مواقع موجود نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں آزادی، کمیونی کیشن، میڈیا اور لاؤڈ اسپیکر و اسٹیج نے ایسے مواقع پیدا کئے جن میں گمراہ کرنے والے لیڈر ابھریں اور پوری امت کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیں۔

یہ جدید قیادتی مواقع ایسے وقت میں ظہور میں آئیں گے جب کہ امت طول أمد کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ ایسی حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہوگا کہ جدید مواقع کو استعمال کرکے امت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر یہ ایک بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں آسان کام یہ ہوگا کہ امت کی زوال یافتہ نفسیات کو استعمال کرکے اس کے اوپر اپنی قیادت کی بنیاد رکھ دی جائے۔ یعنی امت جہاں ہے وہیں سے اس کا سفر شروع کردیا جائے۔

یہ گمراہ کرنے والے لیڈر یہی دوسرا کام کریں گے۔ وہ امت کو فضائل کی پر اسرار کہانیاں سنا کر خوش فہمی میں مبتلا کریں گے۔ وہ ماضی کے تاریخی کارنامے بتا کر انہیں فخر کی غذا دیں گے۔ وہ سیاسی تقریریں کرکے ان کے جوش کو ابھاریں گے۔ وہ ادب اور خطابت کے الفاظ میں انہیں گم کریں گے۔ وہ امت کی پسماندگی کا الزام دوسروں کو دے کر جھوٹی نزاع کھڑی کریں گے۔ بائبل کے الفاظ میں، وہ امت کو لوریاں سنائیں گے اور اس طرح وہ امت کو اس کے زوال پر اور پختہ کردیں گے، نہ یہ کہ اس کو زوال کی حالت سے نکالیں۔

یہ وہی طریقہ ہے جس کو استحصال (exploitation) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ آغاز سے سفر کرنا انہیں ایک بے حد لمبا سفر معلوم ہوگا، وہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس لیے وہ آغاز سے سفر کرنے کے بجائے اختتام سے اپنے سفر کی چھلانگ لگادیں گے، اور پھر خود بھی ہلاک ہوں گے اوراپنی قوم کو بھی ہلاک کریں گے۔

گمراہ کرنے والا لیڈر ہمیشہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بولتا ہے جو لوگوں کو پسند ہو۔ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے منفی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وہ لوگوں کی جھوٹی شکایتوں کو سچا بنا کر دکھاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی زبان سے اپنی دل پسند بولی سن کر لوگ اُس کے گرداکٹھا ہوجاتے ہیں۔

گمراہ لیڈر ہمیشہ یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی اصلاح کرو تو بہت کم لوگ ہوں گے جو اُس پکار کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اس لیے گمراہ لیڈر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی داخلی کمزوریوں کی بناپر پیش آنے والی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو بے قصور بتاتے ہیں اور دوسری قوم کو قصور وار۔ یہ چیز اُن کو اپنی قوم کے اندر مقبول بنادیتی ہے۔

جدید صنعتی دور میں نئے ذرائع کی بنا پر اس قسم کے لیڈروں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ہر زمانہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گمراہ کر سکیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قوم کے لوگ آج ہر زمانہ سے زیادہ محتاط رہیں تاکہ وہ گمراہ کرنے والے لیڈروں کی گمراہی کا شکار نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال صرف لیڈر کے ہی لیے خطرناک نہیں ہے بلکہ وہ خود قوم کے لیے بھی ایک عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom