القاب کلچر
انسان فطری طور پر عظمت پسند ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے پاس حقیقی عظمت نہ ہو تو وہ عظمت کے الفاظ بول کر اپنے اس جذبے کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن کے اندر القاب کلچر ترقی کرتا ہے۔ مثلا ً اپنی پسند کے افراد کو بڑے بڑے القاب دینا۔ جیسے گریٹ لیڈر، گریٹ تھنکر، گریٹ مائنڈ، وغیرہ۔
اس قسم کا القاب کلچر اسلام میں پسند نہیں کیا گیا ہے۔ چناں چہ صحابہ ہمیشہ سادہ الفاظ بولتے تھے۔ بڑے الفاظ کے ساتھ کسی کا ذکر کرنا، ان کے یہاں رائج نہ تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ القاب ہمیشہ مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ اسلام کی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کو اس کی واقعی حیثیت کے مطابق پکارا جائے۔ مثلاً حضرت عمر نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیارکیا۔ کیوں کہ بطور واقعہ وہ امیرالمومنین ہی تھے۔ ان الفاظ میں کسی قسم کا مبالغہ شامل نہ تھا۔ اس کے برعکس، شخصی سلطنت کے زمانے میں حکمرانوں کو شاہنشاہ جیسے الفاظ بولنا، یعنی بادشاہوں کا بادشاہ، وغیرہ۔ یہ لفظ ایک مبالغہ کا لفظ ہے۔کوئی بھی شخص حقیقت میں بادشاہوں کا بادشاہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے الفاظ بول کر فرضی طور پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اندر القاب کلچر رائج ہوجائے، ان کے اندر لازماً ایک چیز ختم ہوجاتی ہے۔ وہ ہے حقیقت پسندانہ سوچ (realistic thinking)،یا اَیز اِٹ اِز سوچ (as it is thinking)۔ اسی کو سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)کہا جاتا ہے۔ القاب کلچر حقیقت پسندانہ سوچ کا قاتل ہے۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں دعا کے الفاظ کے طور پر اس طرح کہا گیا ہے، اے اللہ مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا، جیسا کہ وہ ہیں (اللہم ارنا الاشیاء کما ھی)۔ القاب کلچر غیر حقیقت پسندانہ مزاج پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس مزاج کا شکار ہوجائیں، وہ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔