دل کی بیماری
قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللَّہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (2:10)۔ یعنی ان کے دلوں میں روگ ہے تو اللہ نے ان کے روگ کو بڑھا دیا۔ اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔ اس آیت میں قلبی مرض سے مراد نفاق ہے۔ نفاق کوئی پراسرار چیز نہیں۔ وہ فطرت کا ایک ظاہرہ ہے، جو ہمیشہ اور ہر امت میں پیدا ہوتا ہے۔ نفاق کسی مخصوص قوم کی اجارہ داری نہیں۔
اصل یہ ہےکہ کسی امت کی پہلی نسل اخلاص پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں دھیرے دھیرے اخلاص کمزور یا ختم ہوجاتا ہے۔ اب امت کے لیے ان کا دین تاریخی بڑائی (historical glory) کی چیز بن جاتا ہے۔ وہ دین کو اپنے لیے فخر کا عنوان بنا لیتے ہیں۔ امت کے افراد کی یہ نفسیات اس میں مانع ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرے۔ وہ اپنی قلبی کمزوری کو خوبصورت الفاظ کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی حالت کا نام نفاق ہے۔
نفاق کا اصل مفہوم چھپانا ہے۔ اسی لیے سرنگ کو نفَق کہتے ہیں۔ یہ لفظ جنگلی چوہے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جو خطرہ کے وقت اپنے آپ کو بل میں چھپالیتا ہے۔ انسان کی نسبت سے جب یہ لفظ بولا جائے تواس سے مراد دہرا کردار (double standard) ہے۔ یعنی ایسا انسان جو حقیقت کے اعتبار سے دین سے دور ہوگیا ہو، لیکن خوبصورت الفاظ کے ذریعہ اپنے آپ کو دیندار بتائے۔ دوسرے الفاظ میں حقیقت کے فقدان کی تلافی خوبصورت الفاظ کے ذریعہ کرنا۔ منافقت کا مزاج کسی انسان کے اندر کیوں پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کی اسپرٹ باقی نہ ہو، لیکن ظاہری نوعیت کے کچھ عمل کا اظہار کرکے وہ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ پورے معنوں میں اسلام پر قائم ہے۔