دوڑو جنت کی طرف
کسی انسان کو اگر سچائی کی معرفت ہو جائے، تو وہ بہت زیادہ اس بات کا طالب بن جائے گاکہ اس کا خالق اس سے راضی ہوجائے، اور وہ اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اس حقیقت کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی اور دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بطور نتیجہ ہر اس انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جو سچائی کا متلاشی ہو۔ پھر وہ اللہ رب العالمین کو دریافت (discovery)کے درجے میں پائے۔ جو اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کی دریافت کے نتیجے میں یہ جان لے کہ اس تخلیقی منصوبے کے مطابق انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا میں جنتی شخصیت کو بنائے، اور موت کے بعد آنے والی دنیا میں ابدی جنت میں داخل کیا جائے۔
اللہ کو دریافت کرنا(discovery)در اصل قادر مطلق کے مقابلے میں عاجز مطلق کی دریافت ہے۔ کوئی آدمی اپنے اور اللہ کے مقابلے میں اس نسبت کو دریافت کرے، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس بات کا خواہش مند بن جائے گا کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ وہ کسی حال میں اس کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے۔ اسی کا نام مغفرت ہے۔ اسی طرح جس شخص کو جنت کی دریافت ہوجائے، وہ دل و جان سے اس کا حریص بن جائے گا کہ اس کا خالق اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اللہ کسی حال میں اس کو جنت سے محروم نہ کرے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی آخری حد تک جنت کا حریص بن جائے۔ وہ کسی حال میں جنت کی یاد سے غفلت میں مبتلا نہ ہو۔ وہ جنت کو ہر حال میں اپنا آخری مقصود بنا لے۔